مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کا نام آتے ہی ذہن میں مغلیہ سلطنت، دین الہی اور راجپوت جودھا بائی کے نام آجاتے ہیں۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ اکبر بادشاہ کی پیدائش کہاں ہوئی تھی تو کئی ذہن گوگل سرچ کا آپشن لینا چاہیں گے۔
عمرکوٹ اکبر کی جائے پیدائش
اکبر بادشاہ کی پیدائش عمرکوٹ میں ہوئی تھی، تاریخی حوالوں کے مطابق ہمایوں افغان گورنر بہار شیر خان سے لڑائی میں پسپائی کے بعد عمرکوٹ میں قیام پذیر ہوئے تھے اور اس وقت اس غریب الوطن بادشاہ کے ہمراہ صرف چند سوار اور ان کی رفیقہ حیات حمیدہ بانو تھے۔
بے تاج بادشاہ نے اپنے بیٹے کی پیدائش کی خوشی کے موقع پر اپنے رفیقوں میں مشک نافہ تقسیم کیا اور یہ الفاط کہے ’جس طرح بوئے مشک اپنے اطراف کو معطر کرلیتی ہے اک دن اس بچے کی شہرت تمام دنیا میں پھیلے گی۔‘
ہمایوں کے انتقال کے بعد اکبر 13 سال کی عمر میں تخت نشین ہوئے اور انھوں نے بزور شمشیر مغلیہ سلطنت کو کئی گنا وسعت دی اور انگریزوں کے اس خطے پر قابض ہونے تک یہ سلطنت قائم رہی۔
عمرکوٹ میں اکبر کی پیدائش کے اس مقام پر ایک یادگار تعمیر کی گئی ہے جس کے ساتھ میں ایک چھوٹا سا باغ بھی موجود ہے۔
سیاحت کے حوالے سے بی بی سی کی خصوصی سیریز
تھر کا گیٹ وے
عمرکوٹ شہر کراچی سے تقریبا سوا تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں میرپور خاص، سانگھڑ اور تھر سے بھی راستے آتے ہیں جبکہ سپر ہائی وے سے میرپورخاص اور پھر وہاں سے عمرکوٹ کی سڑک بہتر ہے۔
کراچی سے مٹھی تک سڑک کی تعمیر سے قبل یہ شہر اہم تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا تھا اور اس کو تھر کا گیٹ وے کہا جاتا تھا۔
اس خطے میں عمرکوٹ کا قلعہ سیاست کی کنجی سمجھا جاتا تھا یہ راجستھان کے مارواڑ اور وادی مہران کے اہم سنگم پر موجود ہے، ایک طرف صحرا ہے تو دوسری طرف نہری پانی سے آباد ہونے والا سر سبز علاقہ ہے۔
ماروی کا قید خانہ
عمرکوٹ کا نام یہاں موجود ایک قلعے سے منسوب ہے، جہاں رومانوی داستان اور بہادری کے کئی کرداروں کی یادیں دفن ہیں۔ عمرکوٹ پر راجپوت ٹھاکروں اور بعد میں سومرا خاندان بھی حکمرانی کرتا رہا ہے۔ سندھ کے صوفی شاعر عبدالطیف کی پانچ سورمیوں یا ہیروئنوں میں ایک کردار ’ماروی‘ نے یہاں جنم لیا۔
ماروی کا تعلق تھر کے خانہ بدوش قبیلے سے تھا، اس وقت کے حکمران عمر سومرو نے جب اس کی خوصورتی کے چرچے سنے تو ماروی کو اس کے گاؤں بھالوا سے اس وقت اغوا کر لیا جب وہ کنویں پر پانی بھرنے آئی تھی۔
عمر نے ماروی کو شادی کی پیشکش کی جو انھوں نے ٹھکرا دی جس کے بعد انھیں قید کیا گیا، مختلف لالچ دی گئیں لیکن عمر بادشاھ کامیاب نہ ہوا، بالاخر ہار تسلیم کی اور ماروی کو بہن بنا کر اس کے گاؤں میں چھوڑ آیا۔
اس پورے قصے کو شاہ عبدالطیف نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے اور ماروی کا کردار حب الوطنی اور اپنے لوگوں سے محبت کے حوالے سے علامتی بنایا ہے۔
عمرکوٹ قلعے میں میوزیم
عمرکوٹ کے قلعے میں ایک میوزیم قائم ہے، جس میں قدیم اسلحے کے علاوہ مجنیق کے گولے جن سے قلعوں کی دیواروں پر ضرب لگائی جاتی تھی، خطے میں استعمال ہونے والے زیورات موجود ہیں۔
اکبر بادشاہ کی جائے پیدائش کی وجہ سے یہاں آئین اکبری سمیت اس وقت کے وزار کی تحریر کیے گئے فارسی میں کتب اور دستاویز بھی نمائش کے لیے دستیاب ہیں۔ ان میں ہندو دھرم کی بعض مقدس کتب بھی ہیں جن کا فارسی میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
ہمایوں، حمیدہ بیگم اور اکبر سمیت مغلیہ دربار کی کئی تصاویر بھی یہاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ جین مذہب کی مورتیاں بھی یہاں رکھی گئی ہیں جو تھر کے شہر ویراہ واہ میں سڑک کی تعمیر کے دوران زمین سے نکالی گئی تھیں۔
قلعے کی فصیل پر توپیں بھی نصب ہیں جبکہ نصف میں ایک ڈنڈہ ہے جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس پر لوگوں کو پھانسی پر لٹکایا جاتا تھا، یہاں سے پورے شہر کا نظارہ باآسانی کیا جا سکتا ہے۔
قلعے کے داخلی راستے کے اوپر گھوڑے کی ایک نال کا نشان موجود ہے۔ مقامی روایت کے مطابق جب رانا رتن سنگھ کو پھانسی دی گئی تو ان کے گھوڑے نے چھلانگ لگائی تھی جس کے دوران اس کا ایک پاؤں قلعے کی دیوار سے ٹکرایا اور اس کہانی کا کردار بن گیا۔
رانا رتن سنگھ نے برطانوی حکومت کو محصول دینے سے انکار کردیا تھا اور ان سے لڑائی کی جس کے بعد انھیں گرفتار کر کے پھانسی پر چڑھایا گیا۔
مذہبی ہم آہنگی
مذہب ہم آہنگی کا بنیاد رکھنے والے شہنشاہ اکبر کی جائے پیدائش کے شہر میں آج بھی مذہبی ہم آہنگی نظر آتی ہے۔
یہاں مندر اور مساجد ساتھ ساتھ موجود ہیں، ہندو مسلم آبادی تقریبا برابر ہے اور دونوں ایک دوسرے کی خوشی غمی کے علاوہ تہواروں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔
شہر کے قریب شیو مہادیو کا ایک قدیم مندر ہے جس پر ہر سال میلہ لگتا ہے اور منتظمین اور مددگاروں میں مسلمان بھی شامل ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ قریب ہی صوفی فقیر کا شہر واقع ہے جہاں صوفی صادق کا مزار ہے جو صوفی شاہ عنایت کی مزاحمتی تحریک سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ پتھورو شہر میں پیر پتھورو کا مزار ہے جس کے عیقدت مند ہندو کمیونٹی کے لوگ ہیں۔
عمرکوٹ کا بازار
عمرکوٹ کے بازار کا شمار سندھ کے قدیم بازاروں میں ہوتا ہے، یہاں آج بھی پتے والی بیڑی بنائی جاتی ہے اور چند دکاندار خواتین کی روایتی چوڑیاں بناتے ہیں جنھیں چوڑا کہا جاتا ہے۔
یہ چوڑے کلائی سے لیکر بازو تک پہنے جاتے ہیں، موئنجو دڑو سے ملنے والی ڈانس گرل کے مجسمے کے بازوؤں پر بھی ایسے ہی چوڑے نظر آتے ہیں جو کسی زمانے میں عاج یا جانوروں کی ہڈیوں سے بنائے جاتے تھے لیکن اب یہ فائبر گلاس سے بنتے ہیں۔
پہلے چوڑے مسلم اور ہندو دونوں ہی مذاہب کی خواتین استعمال کرتی تھیں لیکن مسلم گھرانوں میں اب اس کا استعمال محدود ہو گیا ہے۔
سونے کے مقابلے میں یہاں چاندی کے زیوارت کی فروخت زیادہ ہے، ہندو قبائل اپنی روایت کے تحت جہیز میں چاندی زیوارت دیتے ہیں ہر قبیلے کا ڈیزائن بھی الگ ہوتا ہے۔
سبزہ اور صحرا
عمرکوٹ شہر کے ساتھ ہی صحرائی علاقہ بھی شروع ہوجاتا ہے، ایک طرف سر سبز کھیت ہیں تو دوسری طرف ٹیلوں کا سلسلہ ہے۔
انڈیا جانے والی ٹرین عمرکوٹ ضلعے کے مختلف شہروں سے گذر کر کھوکھرا پار سرحد عبور کرتی ہے۔ یہ قدیم روٹ ہے، برصغیر کی تقسیم کے وقت مہدی حسن، مشتاق احمد یوسفی اور ڈاکٹر مبارک علی سمیت کئی گھرانے اس سرحد کو عبور کر کے پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے تھے۔