پاکستان کی گرما گرم سیاست میں سرد لندن کا تاریخی کردار رہا ہے اور ماضی میں کئی بڑے سیاسی فیصلے اسی شہر میں ہوئے۔
خاص طور پر اپوزیشن رہنماؤں نے حکومت مخالف اتحاد اور مشاورت کے لیے اسی شہر کو منتخب کیا۔
چارٹر آف ڈیموکریسی ہو، مشرف مخالف تحریک یا پھر نواز شریف حکومت کے خلاف مبینہ لندن پلان، سب کی حکمت عملیاں یہیں بنیں۔
ان دنوں نواز شریف اور شہباز شریف لندن میں ہیں اور انہوں نے پی ٹی آئی حکومت کے موثر سیاسی کردار وضح کرنے کے لیے پارٹی قیادت کو لندن طلب کر رکھا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق لندن میں ہونے والی سیاسی منصوبہ بندیوں کے اثرات کچھ عرصہ بعد دکھائی دیتے ہیں اور ن لیگ کی حالیہ مشاورتی بیٹھکوں کے اثرات کا اندازہ بھی کچھ عرصے بعد ہو سکے گا۔
کیا لندن میں سیاسی مشاورت مجبوری ہے؟
تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان کے بڑے سیاسی فیصلوں کے حوالے سے لندن اس لیے بھی اہم رہا کہ ہم عرصہ دراز تک برطانیہ کی کالونی تھے۔
’تمام سیاسی قیادت وہاں بیٹھ کر اہم فیصلے اس لیے کرتی آئی ہے کہ ایک تو وہاں کھل کر بات کرنا اور اسے پوشیدہ رکھنا آسان ہوتا ہے، دوسرا وہاں ملنے کے موقعے بھی آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں اور میڈیا بھی موجود ہے۔‘
سہیل وڑائچ کے مطابق لندن میں کسی قسم کا دباؤ بھی نہیں ہوتا لہٰذا بیشتر سیاسی قائدین وہیں سیاسی حکمت عملی بنانا پسند کرتے ہیں۔
’جہاں تک مسلم لیگ ن کی قیادت کے لندن میں حالیہ اجلاسوں کا تعلق ہے تو ابھی ن لیگ صرف وقت گزارنا چاہتی ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں فوری کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔‘
ان دنوں اپوزیشن کے اندرون و بیرون ملک مشاورتی اجلاس اس لیے بھی اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، پیپلز پارٹی کی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور جمعیت علما اسلام ۔ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ان ہاؤس تبدیلی کے اشارے دے رہے ہیں۔
تاہم سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو حکومت کے خلاف کوئی بڑی کامیابی ملنے کاامکان نہیں، اگلے سال کے شروع میں کوئی سیاسی ماحول بنتا نظر آئے گا اور جو اب حکمت عملی بنائی جارہی ہے، اس کا اندازہ بھی اسی وقت لگایاجاسکے گا۔
سینیئر صحافی سلمان غنی نے کہا پاکستان میں جب بھی اپوزیشن نے اہم منصوبہ بندی کی تووہ لندن میں ہی ہوئی، خواہ اپوزیشن جماعتوں کا چارٹر آف ڈیموکریسی ہو، مشرف مخالف تحریک میں اپوزیشن کی حکمت عملی یا زرداری حکومت کے خلاف میمو گیٹ سکینڈل کی منصوبہ بندی۔
’نواز شریف کی حکومت کے خلاف دھرنوں کی منصوبہ بندی بھی برطانیہ میں ہوئی، جس میں پی ٹی آئی ،چوہدری برادران، چوہدری سرور اور طاہر القادری نے شرکت کی اور ان ملاقاتوں کی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ لندن کو پاکستانی سیاست دانوں کا دوسرا گھر کہا جاسکتا ہے۔ ’پانامہ لیکس کیس کو بھی بیرون ملک جائیدادوں کا معاملہ ہونے کی وجہ سے اہمیت ملی تھی لہٰذا لندن میں ہونے والے فیصلے پاکستان کی سیاست میں بعض اوقات بڑی تبدیلی کا موجب ثابت ہوتے آئے ہیں۔‘
پاکستان کے سیاسی فیصلوں میں بیرونی اثر ممکن ہے؟
سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب اور تجزیہ کار حسن عسکری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا یہ بات درست ہے کہ پاکستان کی سیاست میں لندن کی اہمیت رہی ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ ہر فیصلہ لندن میں ہوتا رہا ہے کیونکہ سیاسی رہنماؤں کی کئی اہم ملاقاتیں پاکستان میں بھی ہوئیں جن کے بڑے نتائج نکلے۔
’لندن میں ہونے والے فیصلوں میں غیرملکی اثرات کا تاثر بھی درست نہیں۔ لندن میں سیاسی رہنماؤں کے لیے مل بیٹھ کر ہر طرح کی گفتگو کرنا قدرے آسان ہوتا ہے اور کئی بار مجبوری کی وجہ سے وہاں مشاورتی عمل کرنا پڑتا ہے جیسے مشرف دور میں ملک کی بڑی سیاسی شخصیات وطن نہیں آسکتی تھیں۔‘
’ایسا ضیا دور میں بھی ہوا، جب پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کاپاکستان آنا اور سیاسی ملاقاتیں کرنا مشکل تھا اور اب بھی ن لیگی قیادت علاج کے لیے بیرون ملک ہے تو سیاست جاری رکھنے کے لیے وہاں اجلاس بلایاگیا۔‘
ان کے خیال میں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد لندن میں مقیم ہے، تو کئی جماعتیں وہاں کے رہنماؤں کو بھی مشاورتی عمل کا حصہ بناتی ہیں۔اس کے علاوہ سیاسی رہنماؤں کے لیے لندن آنا جانا قدرے آسان ہوتا ہے۔