سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور قبائلی اضلاع کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے دعوؤں کے باوجود یہاں ٹارگٹ کلنگ تھم نہ سکی اور آپریشن ضرب عضب کے بعد سے ان اضلاع میں لا اینڈ آرڈر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق 83 لوگوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
لا اینڈ آرڈر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق 18-2017 میں 12 جبکہ 2019 میں 71 لوگ مارے گئے۔ رواں سال ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والوں میں 51 کا تعلق شمالی وزیرستان سے اور 20 کا تعلق دوسرے اضلاع سے تھا۔
ٹارگٹ کلنگ میں دوسرے نمبر پر جنوبی وزیرستان ہے، جہاں 11 لوگوں کو گولی مار کر قتل کیا گیا جبکہ تیسرے نمبر پر باجوڑ میں آٹھ لوگ قتل ہوئے۔
اس طرح ضلع خیبر میں چھ، کُرم میں پانچ اور اورکزئی میں دو افراد کو ٹارگٹ کرکے ہلاک کیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ رواں برس ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوا اور جن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، وہ زیادہ تر نوجوان تھے۔
مقامی صحافی دلاور خان وزیر کے مطابق دیگان کے رہائشی 16 سالہ ثمین اللہ کو گھر سے بازار جاتے ہوئے راستے میں دن دہاڑے نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کرلیا اور چار دن بعد ایک قریبی نالے سے ان کی ذبح شدہ لاش ملی۔
اس طرح 25 سالہ شاہپور رحمان کو ان کے مکان کے قریب نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔
اس واقعے کے چند روز بعد 27 سالہ شیر ایاز خان کو بھی نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا، جن کی نو ماہ پہلے شادی ہوئی تھی۔
دلاور خان وزیر کے مطابق محمد سلام نامی شہری تپی غونڈئی کلے میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے، جب کہ اسی علاقے کے ایک اور رہائشی صالح بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔
اس طرح سابق رکن قومی اسمبلی مولانا دیندار کے بیٹے موسیٰ خان اور زیرکی کے رہنے والے عبدالقیوم اور عیسوڑی کے رہائشی ظہور اسلام کو بھی نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔
ایک اعلیٰ افسر کے مطابق ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ شمالی وزیرستان میں 24 دھماکے بھی ہوئے، جن میں چار خودکش دھماکے شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز کے قافلوں اور چیک پوسٹوں پر نہ صرف راکٹوں سے حملے کیے گئے، بلکہ کئی دفعہ چیک پوسٹوں کو میزائل سے بھی نشانہ بنایا گیا، جس میں جانی و مالی نقصان ہوا۔
دلاور کے مطابق شمالی وزیرستان سے رکن صوبائی اسمبلی میر کلام وزیر نے بتایا: ’ضرب عضب کے بعد ٹارکٹ کلنگ میں اضافہ حیران کن ہے، جس کے پیچھے ضرور کوئی نہ کوئی طاقت ور ہے۔‘
’پہلے ٹارگٹ کلنگ رات کو ہوتی تھی، لیکن اب گذشتہ چند مہینوں سے دن دیہاڑے نوجوانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘
میر کلام کے مطابق ٹارگٹ کلنگ کے اکثر واقعات بازاروں یا زیادہ آبادی والے علاقوں میں ہوتے ہیں، لیکن کسی بھی واقعے میں ملوث ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی، حتیٰ کہ ابھی تک ایک ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوئی۔
رکن صوبائی اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ پولیس اور مقامی انتظامیہ ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں اور جو واقعات پیش آئے ہیں، ان کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جائے جو آزادانہ طور پر تحقیقات کرسکے۔
ایک سینیئر پولیس افسر نے بتایا کہ یہاں پولیس نئی آئی ہے اور وہ اس طرح سے فعال نہیں جس طرح خیبر پختونخوا کے پُرانے اضلاع میں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس آہستہ آہستہ اپنا نظام فعال کرنے میں مصروف ہے، جب نظام اچھی طرح سے کام شروع کرے گا تو ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی کمی واقع ہوگی۔
مذکورہ اہلکار نے مزید کہا ’اس وقت پولیس کی کارروائیوں سے زیادہ جرگوں کا کردار بہت اہم ہے جو سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکتے ہیں اور حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ‘
دوسری جانب مقامی لوگ نالاں ہیں کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد سے علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے دعوے کیے گئے تھے لیکن اب بھی نوجوانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
میران شاہ کے رہائشی یوسف خان کا کہنا ہے کہ ’حکومت ٹارگٹ کلنگ روکنے میں ناکام ہوچکی ہے، دوسری جانب عوام بھی اپنی حفاظت خود نہیں کرسکتے کیونکہ ضرب عضب میں عام شہریوں سے اسلحہ لے لیا گیا تھا، جس کے بعد سے لوگ غیر مسلح ہو چکے ہیں۔‘
انہوں نے الزام لگایا کہ افسران کو صرف پیسے کمانے کی فکر ہے، بے گناہ شہریوں کے قتل کی کسی کو فکر نہیں۔
میران شاہ کے ایک سماجی کارکن نے دعویٰ کیا کہ آپریشن ضرب عضب کے دوران دہشت گردوں کو محفوظ راستہ دے کر افغانستان منتقل کر دیا گیا تھا، لیکن اب وہ واپس آ گئے ہیں، جس کی وجہ سے علاقے میں ایک بار پھر امن و امان کی صورت حال خراب ہے۔