جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے قوم کے اتحاد کے لیے آئین پاکستان پر عمل در آمد کو بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں آئین ہے مگر آزاد اور زندہ نہیں ہے۔
اسلام آباد میں تحفظ آئین پاکستان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آئین پاکستان ایک میثاق ملی ہے اور اگر آئین پر عمل درآمد ہورہا ہے تو پھر سب ایک قوم ہے اور اگر اس میثاق ملی پر عمل نہیں ہورہا ہے تو یہ ردعمل فطری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘محرومی کے احساس کو ختم کرنا ہے تو آئین پر عمل کرنا ہوگا، آئین اگر اسلامی ہے تو اسلامی ہونے کے باجود یہاں اسلام نہیں آسکا، اگر آئین جمہوری ہے تو آج تک یہاں جمہوریت نہیں آسکی’۔
انتخابات میں دھاندلی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘عوام ایک بکس میں ووٹ ڈالتے ہیں لیکن گنے کسی دوسرے بکس سے جاتے ہیں اور اسی عمل سے جمہوریت کا قتل کیا جاتا ہے’۔تحریر جاری ہے
انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا آئین وفاقی ہے جس کے تحت کئی وحدتیں ہیں، 18 ویں ترمیم سے صوبوں کے اختیار میں اضافہ ہوا ہے اور آئین وفاق کی جانب سے صوبوں کو اختیار دینے میں تعمل کا اظہار کررہا ہے’۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ‘ایک ادارہ اپنی ذات میں آئین بھی ہے اور قانون بھی ہے جس کو کہتے ہیں جبر، ہمارے ہاں آزادی اور غلامی کی تفریق پر بھی قدغن لگائی گئی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘معاملہ سنجیدہ ہے اس لیے الفاظ میں سختی آسکتی ہے اس کے محرکات کا ازالہ کرنا کیا ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے اس کے بجائے جس نے اپنے حقوق کی بات کی ہم نے اسے غدار کہا، ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملک کے وفادار پیدا کرے۔
حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘جس ملک میں عدلیہ نہ ہو اور عدلیہ کے چیف جسٹس عدلیہ کی آزادی کی تحریک چلائیں، جس جج کے فیصلے اچھے نہ لگیں ان کے خلاف ریفرنس آجاتے ہیں، قانون کو طاقتور جب چاہیں اس کی شکل بگاڑ لیتے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر عدلیہ اور وکلا برادری آئین و قانون کو تحفظ نہ دے سکیں تو ملک کہاں جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا فرض ہے کہ میثاق ملی کا تحفظ کریں،آئین میں جب ہر شہری کو مطمئن کرنے کی صلاحیت موجود ہے تو پھر ہر شہری میدان میں حقوق کی بات کیوں کررہا ہے’۔
اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم سب وہ لوگ ہیں جو انسانی حقوق کے تحفظ، کسان و مزدور کے حق، مرد و خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں، کیا انسانی حقوق کے تعین کے لیے قرآن و سنت کو معیار بنایا جائے یا اپنے معیار کے مطابق’۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘ہمارے ملک میں آئین ہے مگر آزاد اور زندہ نہیں ہے، آئیں اتفاق کریں کہ آئندہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ آئین پاکستان ہوگا’۔
معیشت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ملکی معیشت تباہ ہوگئی ہے اور لوگ ملک سے باہر جارہے ہیں، پاکستان میں سرمایہ کار کا سرمایہ غیر محفوظ ہوگیا ہے، ملک میں کارخانے بند ہورہے ہیں اور مہنگائی عروج پر جارہی ہے’۔
حکومتی بیانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ان نااہلوں نے شرح نمو 2 فیصد دکھایا جو جھوٹ تھا، گزشتہ سال کی نسبت گندم میں 30 فیصد اور چاول کی پیدوار میں 40 فیصد کمی آئی اور بڑے زمینداروں نے کہا ہے کہ ہم اسلام آباد آرہے ہیں اور اپنے بچوں کو برائے فروخت کریں گے’۔
انہوں نے کہا کہ ہماری معیشت بیٹھ گئی ہے اور تم نے کہا تھا اس سال میں ہم 15 ملین بیلز حاصل کریں جو 8 فیصد بھی نہیں ہورہا، چین سے کہا کہ آپ پاکستان سے اشیاء خریدیں جس پر چینی حکومت نے اسی اجلاس میں کہا کہ ایک ارب ڈالر آپ کو دیتے ہیں آپ مال دیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اقتصادی قوت گر گئی ہے، ماضی میں معیشت مضبوط ہونے پر واجپائی نے پاکستان آ کر تجارت کی درخواست کی لیکن اس حکومت کے پاس تو بھارت کے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہو چکی ہے۔