کراچی کا ادبی میلہ اسکاٹ لینڈ کے مصنف اور تاریخ دان ولیم دالرمپل کی تحریر ایسٹ انڈیا کمپنی کےعروج و زوال کے موضوع پر لکھی گئی کتاب کے نام رہا۔ ماضی کے برخلاف کسی بھی بھارتی مصنف اور اداکار نے اس میلے میں شرکت نہیں کی۔
28 فروری سے یکم مارچ تک کراچی کے ساحل سے متصل ہوٹل کے سبزہ زار پر منعقد کیے گئے ادبی میلے میں کئی درجن کتابوں کی تقاریب رونمائی اور مصنفین کی دستخطی نشستوں کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس میلے میں نمائشوں، خطاطی اور مباحثوں کے علاوہ کتب میلے اور میڈیا رومز کا بھی انتظام تھا۔
ادب میلے کی افتتاحی تقریب سے مہمان خصوصی وفاقی وزیر شفقت محمود نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے لیے ایک نہایت ولولہ انگیز تجربہ ہے،”میں نے ایک مقام پر اتنے سارے ادبی معززین پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ ان سے ملاقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کا موقع میسر آنا بڑے اعزاز کی بات ہے، میں اس پر وقار تقریب سے بے حد متاثر ہوا اور مجھے جان کر خوشی ہوئی کہ یہاں آتے ہوئے جو ٹریفک جام تھا وہ کسی کنسرٹ کے لیےنہیں بلکہ ادبی تقریب کے لیے تھا۔‘‘
ادبی میلے میں انفاق فاؤنڈیشن کی جانب سے اردو ادب پرائز کے نام سے ایوارڈ بھی دیا گیا، اس ایوارڈ کے لیے سید کاشف رضا کی چار درویش اور ایک کچھوا، حسن منظر کی اے فلک ناانصاف اور عطیہ داود کی سندھ ادب:ایک مختصر تاریخ کو نامزد کیا گیا تھا۔
ایوارڈ جیوری میں نامور ادیب اصغر ندیم سید، ڈاکٹر ناصر عباس اور حمید شاہد شامل تھے۔ جیوری نے حسن منظر کی تصنیف اے فلک نا انصاف کو ایوارڈ کا حق دار قرار دیا۔
انگریزی کتب کے لیے ‘کے ایل ایف گیٹز فارما فکشن‘ پرائز کے نام سے ایوارڈ کی فہرست میں شہریار شیخ کی’کال می ال‘، عظمٰی اسلم خان کی’دی مرکیولیس‘ اور محمد حنیف کی’ریڈ برڈ‘نامزد شامل تھیں۔ ریڈ برڈ کو ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس ایوارڈ کی جیوری غازی صلاح الدین، محترمہ حوری نورانی اور ڈاکٹر نادیہ چشتی مجاہد پر مشتمل تھی۔
ادبی میلے کا دوسرا روز بھی سیر حاصل مباحثوں اور پررونق سرگرمیوں سے بھر پور رہا۔ دن کا آغاز ایک ورکشاپ سے ہوا، جس کا عنوان تھا ‘میڈیا لٹریسی اینڈ مس انفارمیشن‘۔ یہ ورکشاپ پاکستان میں مقیم ایوراڈ یافتہ امریکی صحافی سبرینا ٹوپا نے کرائی۔
دوسرے سے روز گیارہویں ادبی میلے کی سب سے اہم تقریب معروف اسکاٹش محقق ولیم ڈلرمپل کی کتاب Forgotten Masters: Indian Painting for the East India Company کی رونمائی تھی۔ اس کتاب میں مصنف نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی برصغیر میں آمد اور اس کے پس منظر پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا تھا،”کتاب میں صرف حقائق پیش کیے گئے ہیں کہ کس طرح کسی ملک کی حکومت نہیں بلکہ صرف ایک کمپنی نے پورے ہندوستان پر قبضہ کیا۔‘‘ شرکاء نے بھی اس کتاب میں غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا اور یہی وجہ رہی کہ کتاب ادبی میلے کی بیسٹ سیلر قرار پائی۔
خواتین کی تحریکوں کے عنوان سے فوزیہ سعید کی کتاب کی بھی رونمائی ہوئی۔ اس کے علاوہ قوت سماعت اور گویائی سے محروم بچوں کے لیے ہینڈی کرافٹ کا اسٹال بھی شرکا کی توجہ کا مرکز رہا۔
پرفارمنگ آرٹ کے حوالے سے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ اور معروف رقاصہ شیما کرمانی نے عصمت چغتائی کی بین المہذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے والی مختصر کہانی ‘کافر‘ کو اداکاری کے روپ میں پیش کیا۔
ادبی میلے کے تیسرے روز بھی کئی کتابوں کی تقریب رونمائی اور مباحثوں کا اہتمام کیا گیا۔ آخری روز اکیسویں صدی میں پاکستان سنیما، میڈیا کرائسز اور فنانشل انکلوزن اور وومن امپاورمنٹ کے عنوان سے مباحثے حاضرین کی توجہ کا مرکز رہے۔
اکسویں صدی میں پاکستانی سنیما پر فصیح باری خان کے علاوہ ثاقب ملک، گل بی بی، کے علاوہ اداکاروں فیصل قریشی، شہریار منور صدیقی، عدنان صدیقی اور سنگیتا رضوی نے اظہار خیال کیا جبکہ میڈیا کرائسز کے موضوع پر معروف صحافی اظہر عباس، مبشر زیدی، اویس توحید اور سبرینا ٹوپا شریک گفتگو تھے۔
گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر، وفاقی وزیر اسد عمر، وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹر عشرت حسین کے علاوہ عائشہ عزیز اور محمد اورنگ زیب نے فنانشل انکلوزن اینڈ وومن امپاورنٹ پر مثبت اور سیر حاصل گفتگو کی۔
دن کا اختتام راگا بوائز کی پرجوش پروفارمنس پر ہوا، جس نے حاضرین کو جھومنے پر مجبور کردیا۔