جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ خواتین مارچ بے حیائی اور مغرب زدہ معاشرے کو پاکستان میں لانے کی یہودی سازش ہے، اس قسم کے مارچ کی آئین، معاشرے اور مذہب میں اجازت نہیں۔
ملتان میں مدرسہ قاسم العلوم میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ق لیگ کے پاس دینے کو کچھ نہیں تھا، ہمیں کسی اور نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ جنوری آخری ماہ ہوگا، ق لیگ کا تو صرف چہرہ سامنے تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں جنوری کے مہینے کا کہا گیا تھا کہ وہ آخری ہوگا، اگر حکومت نہ گئی تو یقین دہانی کرانے والوں کو ہمیں جواب دینا پڑے گا۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ اس وقت مسئلہ صرف معاشی بدحالی کا نہیں بلکہ ریاست بھی بچانی ہے، اپوزیشن تین مواقع پر تقسیم ہوئی ہے، اسے اکھٹے ہو کر کام کرنا چاہیے، کسی بھی شخص کی نظر اگر اقتدار پر ہو گی تو وہ عوام کی خدمت نہیں کرسکے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہاکہ حج فارم میں ختمِ نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کی کوشش پر وزیرِ مذہبی امور کی وضاحت کو کافی نہیں سمجھتے، کچھ قوتیں تو ہیں جو پسِ پردہ رہ کر یہ کروانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ افغانستان اور امریکا کے درمیان ہونے والا معاہدہ امن کی طرف اچھی پیش رفت ہے، بہت سے لوگ امن معاہدے سے خوش نہیں، ہمیں کمزور پہلوؤں کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنا چاہیے اور معاہدے پر عمل کرنا چاہیے، اس طرح کے معاہدوں کے بعد کچھ قوتیں معاہدوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرتی ہیں، افغانستان میں صاحبِ اقتدار لوگ اس معاہدے کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ افغانستان میں امن کے متلاشی خطے کے ممالک نے اس امن معاہدے کو سراہا ہے، وہاں 20 سال کے بعد امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو رہا ہے، ہمیں اس معاہدے کو افغانستان میں مستقل امن کے قیام کی طرف بڑھانا چاہیے، ابتدا میں اس طرح کے فیصلوں پر کچھ مشکلات آتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس معاہدےکی کسی طرف سے خلاف ورزی پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، معاہدے کی خلاف ورزی کو سفارتی سطح پر اٹھانا اور احتجاج کرنا کافی ہے، طاقت کے ذریعے معاہدے کو سبوتاژ نہ کیا جائے، خلاف ورزی کو معاہدے میں شریک ممالک کے علم میں لانا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سی قوتیں اپنے مفادات کے تحت افغانستان میں امن نہیں چاہتیں، وہاں اقتدار میں موجود لوگوں کےاپنے سیاسی مفاد ہیں، سازشیں، افواہیں اور غلط فہمیاں پیدا کر کے امن معاہدے کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہو گی۔