پاکستان بھر کے مختلف علاقوں میں رضاکاروں کے کئی ایسے گروپ وجود میں آ چکے ہیں جو کسی سرکاری مدد کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت کورونا کے مریضوں کی مدد کرنے، کورونا کے خلاف آگاہی پھیلانے، نادار لوگوں کو راشن پہنچانے سمیت بہت سے رفاہی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی عوام کے ایثار اور جذبے کی شاندار مثالیں سامنے آ رہی ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمرجنسی امور کی رابطہ کمیٹی کے انچارج محمد بلال نے بتایا کہ ان کا کام بہت مشکل ہو گیا ہے لیکن پھر بھی ان کے کارکن پورے جذبے سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ”ہم بے سہارا لوگوں کے لیے قائم کردہ اپنے پانچ ہزار شیلٹر ہومز میں موجود لوگوں کو کرونا سے بچانے کی تگ و دو کر رہے ہیں، ملک میں موجود ہماری اٹھارہ سو ایمبولینسز کرونا کے مریضوں کو ہسپتال پہنچانے کی ڈیوٹی بھی دے رہی ہیں، ہر مریض شفٹ کرنے کے بعد ہمیں ایمبولینس کو دھونا اور جراثیم سے پاک کرنا پڑتا ہے، ڈرائیور کی سکریننگ کی ضرورت پڑتی ہے، اس کے علاوہ لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے جو لوگ پہلے اپنی ٹرانسپورٹ پر مریض لے جاتے تھے اب وہ بھی ایدھی کی ایمبولینس کو بلاتے ہیں، اس طرح ہمیں چوبیس گھنٹے کام کرنا پڑ رہا ہے۔ ‘‘
ایک سوال کے جواب میں ایدھی فاؤنڈیشن کے محمد بلال نے بتایا کہ آپریشن کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اور عطیات معمول سے بھی کم ہو گئے ہیں، کاروبار بند ہو گئے ہیں اور عطیات دینے والے متوسط طبقے کو مستقبل کی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر اپنے راشن کو محفوظ کرنے کی فکر لاحق ہے،”حالات جیسے بھی ہوں ہم نے تو یہ کام کرنا ہے اور ہم اسے محدود وسائل کے ساتھ بھی بہتر طریقے سے کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے‘‘۔
الخدمت فاونڈیشن کے صدر عبدالشکور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے فاؤنڈیشن کا تھرپارکار کا پورا ہسپتال قرنطینہ بنانے کے لیے سندھ حکومت کے سپرد کر دیا ہے، ” ہماری تنظیم اگرچہ بہت سے شعبوں میں لوگوں کی خدمت کر رہی ہے لیکن موجودہ حالات میں ہم ترجیحی بنیادوں پر میڈیکل سہولتوں کی فراہمی اور نادار لوگوں کے لیے راشن مہیا کرنے کا کام کر رہے ہیں، ملک بھر میں موجود ہمارا نیٹ ورک فلاحی خدمات کی انجام دہی کے لیے دن رات سرگرم عمل ہے۔‘‘
ایدھی فاؤنڈیشن کی سینکڑوں ایمبولینسز خدمات فراہم کرنے میں مصروف ہیں
عبدالشکور کا ماننا ہے کہ پاکستانی قوم کورونا کرائسز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، ”چند دن پہلے ہمارے کام سے آگاہی رکھنے والی ایک شخصیت نے خود فون کر کے ہمارے نمائندے کو اپنے دفتر بلایا اور اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ ایک کروڑ روپے بطور عطیہ غریب لوگوں کو راشن ڈلوانے کے لیے دیے، ہم نے جان بچانے والے میڈیکل سامان کی شدید ضرورت کی وجہ سے ان سے ان کے آدھے پیسے میڈیکل کے سامان کی خریداری میں صرف کرنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے اس مد میں ایک کروڑ روپے مزید بھجوا دیے۔ یہی جذبہ کم آمدنی والے لوگوں کے عطیات میں نظر آ رہا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا،”بیرون ملک مقیم پاکستانی اور ہماری خواتین بھی فلاحی کاموں میں پیچھے نہیں ہیں۔ چلی سے آنے والے ایک عمر رسیدہ شخص نے خود رابطہ کر کے ہمیں ڈھونڈا اور دس لاکھ روپے بطور عطیہ پہنچائے۔‘‘ عبدالشکور کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم اپنے دکھی بھائیوں کی مدد کرکے کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال سنبھال لے گی۔
ڈیفنس لاہور کے ایک متمول گھرانے کے نوجوان ثاقب چوھان اپنی جیب، اہل خاندان اور دوستوں سے عطیات لے کر لاک ڈاؤن کے دوران بے روزگار ہوجانے والے لوگوں کو پانچ ہزار روپے فی مہینہ دے رہے ہیں۔ ان کے بقول ان کی یہ سروس کم از کم تین ماہ تک جاری رہے گی،” میرے لوگ کے نام سے بنائی جانے والی ان کی فلاحی تنظیم کے لوگ ایک مہم چلا کر مستحق افراد کو تلاش کر رہے ہیں۔‘‘
طلحہ ملک نامی ایک نوجوان نے سوشل میڈیا کے ذریعے کورونا کے خلاف عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے مہم شروع کر رکھی ہے۔ وہ اب تک ٹوئٹر، انسٹا گرام، فیس بک، یو ٹیوب اور واٹس ایپ کے ذریعے سینکڑوں پیغامات اپ لوڈ کر چکا ہے۔ طلحہ نے پاکستان بھر میں موجود اس کے خاندان کے پچاسی افراد کے لیے واٹس ایپ پر ایک آگاہی گروپ بھی بنا رکھا ہے، جس پر سب لوگ کورونا کے مقابلے کے لیے پوسٹیں شیئر کرتے ہیں۔
اسی طرح لاہور کے علاقے ٹاؤن شپ میں چند نوجوان دوکاندار لاک ڈاؤن کے دنوں میں سیلز مینوں کو فارغ نہ کرنے اور ان کی پوری تنخواہ دینے کے لیے مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سبزہ زار میں رہنے والا سبطین بھی اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے علاقے کے غریب لوگوں کو راشن پہنچانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
فلاحی تنظیم دعا فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر فیاض عالم حکومتی مدد کا انتظار کیے بغیر کراچی کے چھ بڑے ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کو بچانے والے ڈاکٹروں اور طبی عملے کو بچانے کے لیے لاکھوں روپوں کا حفاظتی طبی سامان فراہم کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ کے میڈیکل کالجوں کی ایلومینائی ایسوسی ایشنز اس سلسلے میں بڑھ چڑھ کر کام کر رہی ہیں۔
لاہور پریس کلب کے فنانس سکریٹری زاہد شیروانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عوام کو کورونا سے آگاہی فراہم کرنے میں میڈیا کا کردار اہم ہے، اگرچہ لاہور کے کئی صحافی کورونا کے شبے میں ٹیسٹوں کے مراحل سے گزر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود رپورٹرز اپنا کام محنت سے لیکن حفاظتی اقدامات کے ساتھ کر رہے ہیں۔
گنگا رام ہسپتال کی ڈاکٹر نمرہ نثار کا کہنا ہے کہ ایک ڈاکٹر کو کورونا کا شکار ہو جانے کا خوف تو فطری عمل ہے لیکن ان کے تمام ساتھی بعض اوقات حفاظتی آلات پورے نہ ہونے کے باوجود مریضوں کی بڑے جذبے سے خدمت کر رہے ہیں،”ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے ہیں،کورونا کی علامات کا شبہ ہو تو اپنے ساتھی ڈاکٹر کو کام سے ہٹا کر خود رضاکارانہ طور پر اس کا کام اپنے ذمے لے لیتے ہیں۔‘‘
ملک میں بہت سی جگہوں پر لوگوں نے عام شہریوں میں ماسک اور سینیٹائزرز مفت تقسیم کیے ہیں۔ بعض دوکانداروں کی طرف سے کورونا کنٹرول مصنوعات سستے داموں گاہکوں کو مہیا کیے جانے کی اطلاعات بھی گردش کرتی رہی ہیں۔