کئی ناقدین کا کہنا ہے کہ کپتان کی پارٹی شدید اختلافات کا شکار ہے لیکن اس خلشفار کے باوجود بھی پی ٹی آئی کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ ‘طاقتور حلقے‘ کپتان کے ساتھ ہیں۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ مرکزی قیادت کی آپس کی لڑائی نے پی ٹی آئی کے اصلاحاتی ایجنڈے کو نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاہ محمود، جہانگیر ترین اور اسد عمرکے اختلافات نے سیاسی طبقے کو گیم سے آوٹ کر دیا اور خالی ہونے والی جگہ کو غیر سیاسی افراد نے پُر کیا۔ فواد چوہدری نے الزام عائد کیا کہ اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹوانے میں جہانگیر ترین کا ہاتھ تھا۔
تقریباﹰ تئیس برس پہلے اپنی تشکیل سے لے کر اب تک پی ٹی آئی کئی محاذوں پر تقسیم اور اختلافات کا شکار رہی۔ نوے کی دہائی میں سیاسی افق پر نمودار ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی پارٹی کے سکریٹری جنرل معراج محمد خان نے کپتان کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے پارٹی سے استعفی دیا۔ نون لیگ کے نامور رہنما جاوید ہاشمی دھوم دھڑکے سے پی ٹی آئی کا حصہ بنے لیکن پھر شورشرابے کے ساتھ پارٹی کو خدا حافظ کہا اور اس پر تنقید کے نشتر بھی چلائے۔
پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر، سابق ایم این اے عائشہ گلالئی، جسٹس وجیہ الدین، سابق ایم این اے داور کنڈی، سابق ایم این اے مسرت زیب سمیت پارٹی کے کئی رہنماؤں نے کپتان کی کپتانی ماننے سے انکار کرتے ہوئے پارٹی کو خیر باد کہا۔
پارٹی کو تازہ جھٹکا گزشتہ مہینوں میں اس وقت لگا، جب عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی جہانگیر ترین کو آہستہ آہستہ پہلے سائیڈ لائن کیا گیا اور پھر شوگر اسکینڈل میں ان کا نام آیا، جس کی وجہ سے یہ بات زبان زد عام ہوئی کہ پارٹی میں بہت خلفشار ہے۔
اب فواد چوہدری کے بیان نے اس خلشفار کو مزید آشکار کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی نے فواد چوہدری کی اس بات کو درست قرار دیا کہ اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹوانے میں جہانگیر ترین کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”لیکن جہانگیر ترین نے یہ کام اپنی ذات کے لئے نہیں کیا تھا۔ اسد عمر آئی ایم ایف کے پاس جانے میں دیر کر رہے تھے، جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا تھا۔ اس پر مقتدر حلقے بھی سخت ناراض تھے۔ جہانگیر ترین نے وسیع تر قومی مفاد میں یہ رائے دی کہ اسد عمر کو ہٹایا جائے کیونکہ ملکی معیشت کا تقاضا یہی تھا کہ فیصلے فوری طور پر کیے جائیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر صحیح ہے کہ سیاسی طبقے نے آپس میں لڑائیاں کیں، جس کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت میں غیر سیاسی لوگ آئے، ”سیاسی طبقے اب بھی لڑائی میں مصروف ہیں۔ اب بھی کچھ عناصر جہانگیر ترین کے خلاف سخت ایکشن چاہتے ہیں اور اپنی ذاتی دشمنی نکالنا چاہتے ہیں۔ جہانگیر کو اسٹیٹ بینک، ایف بی آر یا کسی اور ادارے سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن نیب میں تو معاملات دوسری نوعیت کے ہیں، اس لیے وہ ملک سے باہر ہیں۔‘‘
لیکن کیا اس سے پی ٹی آئی کمزور ہو رہی ہے اور کیا اس کے نتیجے میں حکومت گر بھی سکتی ہے۔ اسحاق خاکوانی نے کہا، ”میرے خیال میں طاقتور حلقوں کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے لوگ ٹوٹ بھی گئے تو وہ کہاں جائیں گے؟ نون لیگ کے رہنما باہر ہیں اور زرداری کو معلوم ہے کہ اب ان کو وفاق میں حکومت نہیں ملنی۔ تو یہ حکومت چلتی رہے گی اور اکثریت کو بر قرار رکھنے والے اسے برقرار رکھیں گے۔‘‘
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی میں تین واضح گروپ کچھ برسوں سے موجود ہیں اور وہ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ منڈی بہاوالدین سے پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پارٹی کا نظریاتی گروپ نعیم الحق کی قیادت میں تھا، جس میں اسد قیصر اور کئی رہنما تھے۔ پارٹی کے سرمایہ دار گروپ کی قیادت جہانگیر ترین کر رہے تھے، جس میں پرویز خٹک اور دوسرے پیسے والے لوگ ان کے ساتھ تھے۔ جب کہ پارٹی کا تیسرا گروپ سیاسی افراد پر مشتمل تھا، جن کو آپ الیکٹیبل کہتے ہیں۔ اس گروپ کی قیادت شاہ محمود کرتے تھے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب صورت حال تبدیل ہو گئی ہے، ”نعیم الحق کی وفات ہوگئی ہے۔ جہانگیر ترین باہر ہیں۔ شاہ محمود ملتان سے باہر نہیں نکلنا چاہتے اور اپنی وزارت کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں اسد عمر کی گڈی چڑھ گئی ہے لیکن جلد ہی انہیں بھی کٹ ٹو سائز کیا جائے گا اور بڑا امکان ہے کہ عمران خان وزیر اعظم رہیں گے لیکن وزرا کی جگہ سال یا چھ مہینے میں ٹیکنوکریٹس آجائیں گے، جو پہلے ہی کچھ اہم عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘
کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ کے ذمہ دار بیوروکریٹ ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا خیال ہے کہ اب پارٹی کو صرف عمران خان کی شخصیت ہی مزید تقسیم سے بچا سکتی ہے، ”اعظم خان اور کچھ دوسرے افسران نے پارٹی رہنماوں اور کپتان کے درمیان دوریاں پیدا کیں۔ ان بیوروکریٹس کی وجہ سے پارٹی میں لاوا اُبل رہا ہے اور خان صاحب کو کسی بھی وقت بڑی بغاوت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم اس بغاوت کے کامیاب ہونے کے امکانات کم ہیں کیونکہ سب کو پتا ہے کہ لانے والوں کے پاس خان کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہے۔‘‘