پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ان کا چین کا حالیہ دورہ نہایت ضروری تھا اور وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چین کا کشمیر کے مسئلے پر مؤقف واضح ہے جس میں انھیں ’کوئی تزلزل نہیں دکھائی دے رہا۔‘
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر او آئی سی کی قراردادوں میں کوئی ابہام نہیں ہے اور سعودی عرب کے مؤقف میں او آئی سی کے مؤقف سے کوئی فرق نہیں ہے۔
پیر کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایک سال میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر کے مسئلے پر تین اجلاس ہوئے ہیں جو چین کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھے۔
انھوں نے کہا کہ چین نے واضح انداز میں کہا ہے کہ پانچ اگست 2019 کے انڈیا کے اقدامات یکطرفہ ہیں جنھیں چین مسترد کرتا ہے۔
یاد رہے کہ پانچ اگست 2019 کو انڈیا نے اپنے زیر انتظام کشمیر کو اپنے آئین کی شق 370 کے تحت حاصل خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔
پاکستان کی جانب سے انڈیا کے اس اقدام کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا۔
سعودی عرب کے کشمیر پر مؤقف کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ اس بارے میں سوشل میڈیا پر منفی تاثر دیا گیا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سعودی عرب کا اس حوالے سے مؤقف بہت واضح ہے اور ’اب دیکھنا یہ ہے کہ اسے آگے کیسے لے کر چلنا ہے۔‘
شاہ محمود قریشی نے کے مطابق چین نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین باہمی سٹریٹجک مفادات کا تحفظ کریں گے تاکہ خطے کے امن اور ترقی کو یقینی بنایا جا سکے، جو کہ اُن کے مطابق سی پیک پر اٹھنے والے اعتراضات کا جواب ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انڈیا کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے چین اور پاکستان کے مشترکہ اعلامیے پر دیا جانے والا ردِ عمل بلاجواز ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ چین نے یہ بھی کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور دوطرفہ معاہدوں کی روشنی میں چاہتا ہے، جو کہ ان کے مطابق نہایت اہمیت کا حامل بیان ہے۔
انھوں نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے گذشتہ ایک سال میں کشمیریوں کے عزم کو توڑنے کی بارہا کوشش کی گئی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں چھ جماعتوں کی جانب سے جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے سے وادی کشمیر کے لوگوں کی جدوجہد کو ایک نئی جہت ملی ہے۔
مشترکہ اعلامیے میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی چار اگست 2019 کی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
یاد رہے کہ سنیچر کو پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس، پیپلز کانفرنس اور دیگر جماعتوں نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں انھوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کے مطالبے کو سرِفہرست رکھا تھا۔
سعودی عرب کے ساتھ تعلقات
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا ایک مؤقف ہے اور اس لیے وہ اپنے دوستوں سے توقعات رکھتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات مستحکم ہیں اور رہیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا سعودی عرب نے پاکستان کو دیے گئے پیسے واپس طلب کیے ہیں، اس پر شاہ محمود قریشی نے طنزیہ انداز میں کہا کہ یہ ’مفروضہ‘ اور ’قیاس آرائی‘ ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر اپنا مؤقف پوری دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے اور وزیر اعظم عمران نے کہا ہے کہ پاکستان اس حوالے سے کسی دباؤ میں نہیں آئے گا۔
’چین سے افغان امن عمل پر بات ہوئی، شاہ محمود قریشی‘
افغان امن عمل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان امن عمل کا منطقی نتیجہ بین الافغان مذاکرات ہیں جس کے لیے قیدیوں کی رہائی شرط تھی۔
انھوں نے کہا کہ طالبان کی جانب سے بھی قیدی رہا کیے گئے ہیں اور ان کے بھی قیدی رہا ہوئے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان طالبان کے وفد کے ساتھ ان کی نشست کل ہوگی کی تفصیلات بعد میں سامنے رکھی جائیں گی۔
اس سے پہلے افغان طالبان سیاسی دفتر کا ایک وفد ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں آج صبح پاکستان پہنچ چکا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دورہ چین میں ان کی افغانستان کے معاملے پر بات چیت ہوئی ہے اور چین اس پورے مرحلے کی حمایت کر رہا ہے، اس میں تعمیری کردار ادا کر رہا ہے، اور رابطے میں بھی ہے۔
افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق وفد پاکستانی حکام کے ساتھ افغان امن عمل، پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی مشکلات اور دونوں ممالک کے تعلقات سمیت کئی دیگر موضوعات پر ملاقاتیں کریں گے۔
افغان طالبان کا دورہ پاکستان
بی بی سی کے خدائے نور ناصر کے ساتھ گفتگو میں طالبان ترجمان سہیل شاہین نے بتایا کہ طالبان وفد پاکستانی دفتر خارجہ کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔
سہیل شاہین کے مطابق پاکستان کا دورہ کرنے والے وفد میں ملا عبدالغنی برادر کے ساتھ ملا خیراللہ خیرخواہ، محمد نبی عمری، ملا شہاب الدین دلاور، عبدالطیف منصور اور قاری دین محمد شامل ہیں۔
سہیل شاہین کے مطابق کورونا کی وبا کے باعث اُن کے سیاسی دفتر کے نمائندوں کے غیر ملکی دورے رک گئے تھے اور اب یہ سلسلہ دورہ پاکستان سے واپس شروع کر رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے ساتھی عنقریب دیگر ممالک کے دورے بھی عنقریب کریں گے۔
طالبان وفد پاکستان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کررہے ہیں جب دو دن پہلے ہی وزارت خارجہ نے طالبان اور حقانی نیٹ ورک سمیت کئی شدت پسند تنظیموں سے وابستہ افراد پر پابندیاں مزید سخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس سے پہلے قطر سے طالبان وفد کی پاکستان کا آخری دورہ اکتوبر 2019 میں ہوا تھا، جس وقت امریکہ اور طالبان کے درمیان امن عمل کچھ عرصے کے لیے رکا ہوا تھا۔
اب اگرچہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوئے کئی ماہ گزر گئے ہیں لیکن تاحال بین الافغان مذاکرات شروع نہیں ہوئے ہیں۔
طالبان کے نزدیک ان مذاکرات کی تاخیر کی وجہ اُن کے باقی رہ جانے والے قیدی ہیں جن کے بارے میں افغان لویہ جرگہ نے بھی افغان صدر اشرف غنی کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے طالبان کے ان باقی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
گذشتہ ہفتے افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے آخری قیدیوں کی رہائی کا عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے۔
کابل اور بین الاقوامی دنیا پاکستان پر ایک عرصے سے طالبان کی معاونت کا الزام لگاتے رہے ہیں اور جب اکتوبر 2019 میں طالبان وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو سوشل میڈیا پر انھیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
افغان حکومت نے بھی اُس وقت پاکستان سے احتجاج کیا تھا کہ طالبان وفد کو کیوں اتنا پروٹوکول دیا گیا تاہم افغان طالبان کا مؤقف ہے کہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے دورے بھی کرسکتے ہیں تاکہ دنیا اور ان ممالک کے سامنے اپنا سیاسی مؤقف پیش کریں۔