اندرونی و بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے دو سالوں میں 11.35 ٹریلین یعنی گیارہ ہزار ارب سے زیادہ کا اضافہ ہو چکا ہے۔
ان دو سالوں میں اندرونی اور بیرونی ذرائع سے حاصل کیے گئے قرضوں کے نتیجے میں پاکستان کے ذمے واجب الادہ مجموعی قرضوں کا حجم 36.3 تین ٹریلین یعنی چھتیس ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔
اس میں بیرونی قرضے کے علاوہ داخلی طور پر ادھار پر لیے گیے وہ قرضے بھی ہیں جو حکومت مالی خسارے کو پورا کرنے کے لیے مرکزی بینک اور تجارتی بینکوں سے اٹھاتی رہی ہے
پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کے اس بے تحاشا بوجھ کی وجہ سے ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ملک کے ذمے واجب الادہ قرضوں کا حجم پاکستان کی قرضوں کی واپسی کی صلاحیت کو متاثر کر رہا ہے۔
اسی حوالے سے مزید پڑھیے
ان کے مطابق پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھنے میں ملک کے بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور شرح سود کا بلند ہونا بھی تھا جن کی وجہ سے بیرونی اور اندرونی قرضوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
وزارت خزانہ کے ترجمان نے شرح سود اور اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کے ساتھ کورونا وائرس اور پورے ملک میں لاک ڈاؤن کی کیفیت کے نتیجے میں ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان، ٹیکسوں کی وصولی میں کمی اور حکومت کی جانب سے مختلف شعبوں کے لیے دیے گئے امدادی اور مراعاتی پیکیج کو بھی خسارے کی وجہ قرار دیا جس نے قرضوں میں اضافہ کیا۔
دوسال میں قرضہ کتنا بڑھا؟
پاکستان کی وزارت خزانہ کے مطابق ملک پر اس وقت مجموعی طور پر قرضے کا حجم چھتیس ہزار ارب سے زائد ہے جو ملکی جی ڈی پی کا 87 فیصد بنتا ہے۔
گذشتہ مالی سال کے اختتام پر اس قرضے کا حجم جو چھتیس ہزار ارب تھا وہ سن 2018 میں تیس جون کو ختم ہونے والے مالی سال کے اختتام پر تقریبا پچیس ہزار ارپ روپے تھا جو جی ڈی پی کا 72.5 فیصد بنتا تھا۔
وزارت خزانہ کے ترجمان محسن چاندانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ دو سال میں گیارہ ہزار ارب سے زائد کا قرضہ لیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ سن 2008 میں ملک پر مجموعی قرضوں کا حجم ساڑھے چھ ہزار ارب روپے تھے جو پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کے آخری مالی سال میں ساڑھے تیرہ ہزار ارب تک جا پہنچا۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کے آخری مالی سال میں مجموعی قرضہ پچیس ہزار ارب تک جا پہنچا جو موجودہ حکومت کے پہلے دو سالوں میں چھتیس ہزار ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔
اس قرضے میں بیرونی ذرائع یعنی آئی ایم ایف، ورلڈ بنک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دوسرے مالیاتی اداروں سے حاصل کیے جانے والے قرضے اور اندرون ملک مرکزی اور تجارتی بینکوں سے اٹھائی گئی رقم شامل ہے۔
دو سالوں میں قرضہ کیوں بڑھا؟
دو سالوں میں ملک پر لدے قرضوں میں گیارہ ہزار ارب روپے سے زائد کے اضافے پر بات کرتے ہوئے وزارت خزانہ کے ترجمان نے اس کی دو بڑی وجوہات قرار دیں۔
ایک، ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی کی قدر میں کمی کا ہونا اور دوسرا پاکستان میں شرح سود کا بلند سطح پر رہنا۔
ترجمان کے مطابق پاکستان میں شرح سود بلند ہونے کی وجہ سے ان دو سالوں میں ساڑھے چار ہزار ارب روپے سے زیادہ قرضے میں اضافہ ہوا۔
کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے سے پہلے پاکستان میں شرح سود سوا تیرہ فیصد پر تھی تاہم کورونا کی وجہ سے ملکی معیشت میں پید ہونے والی سست روی کو دور کرنے کے لیے اسے سات فیصد تک گرا دیا گیا۔
ترجمان وزارت خزانہ نے بتایا کہ قرضوں میں اضافے کی دوسری سب سے بڑی وجہ پاکستانی روپے کی قدر میں دو سالوں میں کمی تھی جس کی وجہ سے ساڑھے تین ہزار ارب کا اضافہ مجعموعی قرضوں میں ہوا۔
موجودہ حکومت کے دو سالوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بے تحاشا کمی دیکھنے میں آئی۔
دو سال قبل 120 روپے میں ملنے والے ایک ڈالر کی قیمت اس وقت 165 روپے سے زیادہ ہے جس نے ملک کے بیرونی قرضوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا۔
انھوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود قرضوں کی واپسی کے لیے ملک کو مزید قرضہ لینا پڑا۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے بھی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور بلند شرح سود کو ملکی قرضوں کے بوجھ میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
انھوں نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور بلند شرح سود نے پاکستان کے قرضوں کے حجم میں خوفناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔
دو سال میں قرضوں میں بےتحاشا اضافے کا ذمہ دار کون ہے؟
دو سال کے عرصے میں ملک پر ساڑھے گیارہ ہزار ارب نئے چڑھنے والے قرضے کی ذمہ داری کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اشفاق نے کہا کہ اس کا ذمہ دار آئی ایم ایف اور اس کی دی گئی پالیسی کو ملک میں نافذ کرنے والے افراد ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ملک میں شرح سود کو بلند سطح پر رکھنے کی شرط آئی ایم ایف کی تھی جسے سٹیٹ بینک نے پورا کیا تو اسی طرح روپے کی قدر میں کمی بھی بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی ایک بنیادی شرط تھی جسے بغیر کسی مزاحمت کے مان لیا گیا اور ملک کی کرنسی میں بے تحاشا کمی کی گئی۔
انھوں نے اس ساری صورت حال کا ذمہ دار آئی ایم ایف کے پروگرام کو قرار دیا اور کہا کہ ملک میں معاشی پالیسیوں کو جس طرح نافذ کیا جا رہا ہے تو اس سے یہی لگتا ہے کہ ایک نئے آئی ایم ایف پروگرام کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
ماہر معیشت صائم علی نے ملک پر قرضوں کے بوجھ کی ذمہ داری پر بات کرتے ہوئے کہا قرضوں کا یہ بوجھ اس وقت بے حد تشویشناک صورت اختیار کر چکا ہے اور انھوں نے ملک کے مالیاتی خسارے کو اس کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا۔
صائم علی نے کہا جب ایک ملک مسلسل خسارے میں جا رہا ہو تو یہ رجحان زیادہ دیر تک بر قرار نہیں رہ سکتا اس لیے پھر آپ کو قرض لینا پڑتا ہے۔
ملک کی مجموعی قومی آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق کی وجہ سے حکومت کو ملکی اور غیر ملکی ذرائع سے پیسے ادھار لینے پڑتے ہیں ۔
ان کے مطابق غیر ملکی قرضوں میں آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک کے علاوہ مختلف ممالک سے حاصل کیے گئے قرضے شامل ہیں ۔
داخلی طور پر حکومتیں مرکزی اور کمرشل بینکوں سے پیسے ادھار لے کر مالیاتی خسارے کو پورا کرتی رہی ہیں۔
کیا حکومت کی قرضہ مینیجمنٹ پالیسی صحیح ہے؟
ملک پر لدے ہوئے قرضوں کے بوجھ اور انھیں اتارنے کے لیے حکومتی پالیسی پر بات کرتے وزارت خزانہ کے ترجمان نے کہا کہ حکومتی پالیسی کے تحت قرضوں کو کنڑول کرنے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے گئے ہیں کہ جس میں قرضوں کی واپسی کی مدت میں اضافہ ہے جیسے کہ اندرونی قرضےکے لیے یہ مدت ڈیڑھ سال سے چار سال سے زائد کر دی گئی ہے ۔
اسی طرح قرضوں کوحصول کی لاگت میں بھی کمی لائی گئی ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹر اشفاق نے حکومت کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس حکومت کی کوئی مربوط پالیسی نہیں ہے اور ان کی پالیسی صرف آی ایم ایف کی جانب سے دی گئی پالیسی کا نفاذ ہے۔
انھوں نے کہا ہرحکومت کو اپنی پالیسی چاند کا ٹکڑا دکھائی دیتی ہے چاہے وہ کتنی ہی بری کیوں نہ ہو۔ انھوں نے کہا یہ کیسی پالیسی ہے جس نے ملک پر قرضوں کے بوجھ کو مزید بڑھا دیا ہے۔
کیا قرضوں کا بڑھتا بوجھ قرض کی واپسی کی استعداد کو کم کر رہا ہے؟
ماہرین معیشت نے قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی وجہ سے اس کی واپسی کی استعداد میں کمی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا بلاشبہ یہ ایک تشویشناک صورت حال ہے۔
ماہرین کے مطابق حکومت کو اس مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے رقم ادھار لینا پڑتی ہے تاہم اسے لوٹانے کی صلاحیت مسلسل کمزور ہو رہی ہے ۔
پرانے قرضے کو واپس کرنے کے لیے نیا قرض لینا پڑ رہا ہے جو مجموعی قرضے کے حجم میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
صائم علی نے کہ کہ قرضوں کے حجم میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے وہ ہماری مجموعی قومی پیداوار سے زیادہ ہے جس کے بارے میں حکومت کو فکر مند ہونا چاہیے ۔