سینیئر اداکارہ عتیقہ اوڈھو کو گزشتہ ہفتے 21 اگست کو روالپنڈی کی سول عدالت نے شراب برآمدگی کیس میں 9 سال بعد بری کیا تھا۔
راولپنڈی کی سول عدالت نے قرار دیا تھا کہ اداکارہ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں لہذا انہیں باعزت بری کیا جاتا ہے۔
عتیقہ اوڈھو کے خلاف شراب برآمدگی کیس 2011 میں سامنے آیا تھا جب مبینہ طور پر اسلام آباد ایئرپورٹ پر ان کے سامان سے شراب کی 2 بوتلیں برآمد ہوئی تھیں۔
شراب کی بوتلیں برآمد ہونے کے باوجود اداکارہ کو ایئرپورٹ سیکیورٹی حکام نے ان کے خلاف مقدمہ دائر کیے بغیر انہیں کراچی جانے کی اجازت دی تھی،جس پر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کی تھی۔
بعدازاں 2015 میں اس کیس کی سماعت راولپنڈی کی سول کورٹ میں کی گئی تھی اور انہیں بری کردیا گیا تھا۔
تاہم اس مقدمے پر دوبارہ کارروائی شروع ہوئی تھی اور 2017 میں اس حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی جمع کرائی گئی تھی کہ کوئی بھی ٹرائل کورٹ ان کے خلاف شراب برآمدگی کیس کو میرٹ کی بنیاد پر نہیں دیکھ رہی۔
انہوں نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ ٹرائل کورٹ کو قانون کے مطابق فیصلے دینے کی ہدایت دی جائے۔
عدالت نے متعلقہ ٹرائل کورٹ کو اُس وقت تک کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے روک دیا تھا جس کے بعد گزشتہ روز راولپنڈی کی سول عدالت نے انہیں 21 اگست کو باعزت بری کردیا تھا۔
شراب برآمدگی کیس میں 9 سال کےبعد باعزت بری ہونے پر عتیقہ اوڈھو نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے لیے اذیت بھرا وقت ختم ہوا۔
محض شراب برآمدگی کے معاملے پر 9 سال تک عدالتوں کےچکر کاٹنے اور انصاف ملنے میں اتنے سال لگنے کے بعد حال ہی میں اداکارہ نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک ویڈیو جاری کی، جس میں انہوں نے تاخیر کی اصل وجوہات بیان کرنے سمیت ملک کے عدالتی نظام پر بھی بات کی۔
https://www.instagram.com/p/CET-rz0l4dD/عتیقہ اوڈھو نے اپنی ویڈیو میں پاکستانی عدالتوں پر ایک بار پھر یقین کرتے ہوئے کہا کہ وہ انصاف کی فراہمی پر پاکستانی عدلیہ کی شکار گزار ہیں۔
اداکارہ نے اپنی ویڈیو میں بتایا کہ کسی کے لیے بھی اتنے سال تک عدالتوں کے چکر کاٹنا اذیت ناک ہوتا ہے اور وہ بھی تکلیف سے گزریں۔
انہوں نے انصاف ملنے میں تاخیر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چوں کہ اعلیٰ عدلیہ نے ماتحت عدالتوں کے ان کے خلاف فیصلہ دینے سے روک رکھا تھا، جس وجہ سے شاید انہیں انصاف ملنے میں تاخیر ہوئی۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کا انصاف کا نظام ہی ایسا ہے اور بعض مرتبہ مرنے کے بعد لوگوں کو انصاف ملتا ہے۔
انہوں نے عدالتی نظام اور حکومت کو اپیل کی کہ وہ ان افراد کی مدد کریں جو لوگ وکلا کی فیس کے اخراجات ادا نہیں کر سکتے اور اسی وجہ سے ان کے کیس سالوں تک زیر سماعت رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت خصوصی طور پر ان افراد کی مدد کرے جو غربت کی وجہ سے وکلا کی فیس ادا نہیں کرسکتے اور عدالتوں کو بھی ایسے افراد کے حوالے سے سوچنا چاہیے۔
انہوں نے پاکستان کے عدالتی نظام پر مکمل یقین کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک ان سے ہوسکے گا وہ انصاف کے حصول کے لیے دوسرے افراد کی مدد کریں گی۔