وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل( ر) عاصم سلیم باجوہ اور ان کے اہل خانہ کی مبینہ طور پر غیر ملکی جائیدادوں اور کاروبار سے متعلق خبرکی صداقت جلد واضح ہوجائے گی۔
رپورٹ کے مطابق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ‘ خبروں کو بغیر تصدیق چلائے جانے کا پاکستان میں عام رواج ہے مگر اس معاملے کی حقیقت جلد منظر عام پر لائیں گے’۔
ایک اور سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ اپوزیشن کی اے پی سی کے اعلان سے خوفزدہ نہیں ہیں۔
ان کاکہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو وزیر اعظم عمران خان سے مشاورت کے بعد انسانی بنیادوں پر علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی تاہم اب نواز شریف کا اپنی میڈیکل رپورٹس حکومت کے ساتھ شیئر نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ بلکہ نوازشریف لندن میں بیٹھ کر سیاست کررہے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اپنے بھائی نوازشریف کو واپس نہ لاکر اپنے حلف نامےکی خلاف ورزی کررہے ہیں۔
اخلاقی طور پر نواز شریف کو وطن واپس آنا چاہیے اور اگر ان کی صحت بہتر ہے تو انہیں اپنے خلاف موجود مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے۔
واضح رہے گزشتہ سال 21 اکتوبر 2019 کو نیب کی تحویل میں چوہدری شوگر ملز کیس کی تفتیش کا سامنا کرنے والےسابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو خرابی صحت کے سبب تشویشناک حالت میں لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی خون کی رپورٹس تسلی بخش نہیں اور ان کے پلیٹلیٹس مسلسل کم ہورہے تھے۔
مقامی طور پر مسلسل علاج کے باوجود بھی بیماری کی تشخیص نہ ہونے پر نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال کر انہیں علاج کے سلسلے میں 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
جس پر سابق وزیراعظم 19 نومبر کو اپنے بھائی شہباز شریف اور ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کے ہمراہ قطر ایئرویز کی ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن گئے تھے۔
علاج کے لیے لندن جانے کی غرض سے دی گئی 4 ہفتوں کی مہلت ختم ہونے پر 23 دسمبر کو سابق وزیر اعظم نے بیرونِ ملک قیام کی مدت میں توسیع کے لیے درخواست دی تھی جس کے ساتھ انہوں نے ہسپتال کی رپورٹس بھی منسلک کی تھیں۔
تاہم لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں نواز شریف کی تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد ان کی بیماری کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا تھا جس پر صوبائی حکومت متعدد مرتبہ ان کی تازہ میڈیکل رپورٹس طلب کرچکی ہے۔