پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے ملک میں شیعہ کمیونٹی کے خلاف سنی طبقات کی جانب سے نکالے جانے والے جلوسوں اور بیان بازی پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ یاد رہے کہ عاشورہ محرم میں شیعہ کمیونٹی کی جانب سے ہونے والی گستاخیوں کے خلاف سنی جماعتوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں ملک بھر میں توہین مذہب سے متعلق کیسز میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور ان میں زیادہ تر شیعہ کمیونٹی پر الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق صرف اگست کے مہینے میں پاکستان میں توہین مذہب کے کم از کم 40 مقدمات درج کروائے گئے۔ ملک کے خودمختار انسانی حقوق کمیشن کے مطابق زیادہ تر مقدمات شیعہ کمیونٹی کے خلاف درج کروائے گئے، جن میں الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنے مذہبی اجتماعات میں اہل سنت کے مقسدات کی تکفیر و توہین کا ارتکاب کیا ہے۔
جمعے کے روز ملک کے جنوبی شہر اور تجارتی مرکز کراچی میں مفتی محمد تقی عثمانی کی سربراہی میں دیوبندی مکتب فکرکی جانب سے ایک بہت بڑی ریلی نکالی گئی۔ اگلے دن ایسی ریلی کی قیادت بریلوی مکتب فکر کے مفتی منیب الرحمن نے کی، اسی طرح اہل حدیث مکتب فکر نے بھی بڑے اجتماع کا اہتمام کیا۔ ان ریلیوں میں ہزاروں افراد شریک ہوئے جو شیعہ کمیونٹی میں موجود گستاخوں کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے۔
شیعہ و سنی تنازعہ صدیوں پرانا ہے، تاہم 1979 میں ایران میں آنے والے خمینی انقلاب اور پھر اس انقلاب کو پڑوسی ممالک میں پروموٹ کرنے کے شیعی عزائم کی وجہ سے پاکستان میں انیس سو اسی کی دہائی میں شیعہ سنی کشیدگی اپنے عروج پر دیکھی گئی تھی۔ سنی گروہوں کا الزام ہے کہ شیعہ اپنے اجتماعات میں پیغمبر اسلام کی بیویوں ، تین بیٹیوں اور چند قریبی ساتھیوں(صحابہ کرام) کا نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ انکی تکفیر و توہین بھی کرتے ہیں۔ 90 کی دہائی شیعہ سنی فسادات سے بھرپور رہی۔ پاکستان میں ہزاروں شیعہ و سنی علماء ، مشائخ، ڈاکٹرز ، پارلیمینٹیرینزاور بہت سارے پروفیشنلز و نان پروفیشنلز اس فساد کی بھینٹ چڑھ گئے۔ گذشتہ چند سالوں سے ریاست ان فسادات کو قابو کرنے میں کامیاب رہی ہے تاہم اس سال محرم کے قریبی دنوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں اچانک شیعہ ذاکرین کی جانب سے توہین آمیز سلسلہ شروع ہوا جس نے محرم میں زور پکڑ لیا۔ جس سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات پر ریاستی رٹ کو جان بوجھ کر ڈھیلا کیا گیا ہے یا فرقہ پرست کسی نئی سازش کا شکار ہوگئے ہیں۔ دارالحکومت اسلام آباد اور کراچی میں گستاخی کے بہت سنگین واقعات سامنے آئے۔ اسلام آباد میں ہونے والے واقعہ پر خود شیعہ علماء نے بھی شدید اظہار مذمت کیا تھا۔
اسلام آباد میں ذاکر آصف رضا علوی کی گستاخی اور اسکی برطانیہ فرار کی کہانی جب سامنے آئی تو شیعہ و سنی دونوں طرف کی سنجیدہ قیادت نے اس پر شور مچایا اور اسے سازش قرار دیا۔
عاشورہ محرم کے آغاز سے چند دن پہلے ذاکر آصف رضا علوی وزیر اعظم عمران خان کے سپیشل اسسٹنٹ زلفی بخاری اور وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری کے ساتھ ملاقات، ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات کی جانب سے آصف رضا علوی پر پابندی کا عائد ہونا اور پھر اچانک پابندی والی لسٹ سے اس کا نام نکال دیا جانا اور اس کا ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوجانا اس بات کی دلیل ہے کہ باقاعدہ سازش کرکے اس بار محرم میں فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سازش میں زلفی بخاری ، پیر نورالحق قادری،ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات اور گورنر پنجاب چوہدری سرور دانستہ یا نادانستہ شریک رہے ہیں۔ اہل سنت طبقات ان چاروں لوگوں کے خلاف جے آئی ٹی طرز کی انکوائری کا مطالبہ کررہے ہیں۔
دوسری طرف اہل سنت تنظیمیں عاشورہ کے اختتام کا انتظار کرتی رہیں تاکہ ریاستی اداروں سے اس پر بات چیت کی جاسکے۔ کراچی میں بڑے پیمانے پر ہونے والے اہل سنت اجتماعات اسی سلسلے کی کڑی ہیں جن میں گستاخ ذاکروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔
شیعہ کمیونٹی کے خلاف توہین مذہب کے بڑھتے الزامات کے تناظر میں خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ پاکستان ایک بار پھر فرقہ ورانہ تشدد کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ افکار پاک کی ایک رپورٹ کے مطابق شیعہ و سنی کشیدگی میں یہ غیرمعمولی اضافہ ہے اور خدشہ ہے کہ اس سے ملک میں فرقہ ورانہ تشدد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت پر بھی تنقید کی ہے کہ وہ فرقہ ورانہ نظریات کی حامل تنظیموں کی سرگرمیاں روکنے کے لیے کافی اقدامات نہیں کر رہی ہے بلکہ ریاست مدینہ کے دعوے دار وزیر اعظم عمران خان اپنے اسپیشل اسسٹنٹ زلفی بخاری کے ہمراہ ان فرقہ پرستوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں، جو موجودہ حالات کو خراب کرنے میں معاون رہے ہیں۔وزیر اعظم سے ملنے والوں میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جن پر دہشت گردی کے مقدمات درج ہیں مگر حکومت انہیں گرفتار کرنے سے قاصر ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ایک سینیئر عہدیدار اسد اقبال بٹ کے مطابق حکام شدت پسند گروہوں کی سرگرمیوں کے انسداد کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا رہے ہیں۔ بٹ نے مزید کہا، ”حالات خطرناک ہوتے جار ہے ہیں۔ فقط شیعہ و سنی کشیدگی نہیں بلکہ ملک میں لسانی فسادات کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔ حکومت نے فرقہ ورانہ نظریات کی حامل تنظیموں سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ یہ تنظیمیں شیعہ و سنی فسادات کو بھڑکانے اور دیگر غیرمسلم اقلیتوں سے متعلق بھی نفرت انگیزی میں مصروف ہیں۔