اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم ’او آئی سی‘ کے وزرا خارجہ کے 47ویں اجلاس سے پاکستان کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے تنازعہ کے بارے میں وہ مل گیا ہے جس کے نہ ملنے کی وجہ سے اب سے کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کے بادل منڈلا رہے تھے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے تنازعے پر پاکستان کا جو موقف رہا ہے اسے وزرا خارجہ کے 47ویں اجلاس سے منظور ہونے والی قرارداد میں نہ صرف دہرایا گیا ہے بلکہ اس مرتبہ ’اسلامو فوبیا‘ کا معاملہ جسے پاکستان سرکاری طور پر اپنی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جزو بنا چکا ہے، اس پر بھی او آئی سی نے ایک قرارداد کی توثیق کی ہے۔
اس قرارداد میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ’اسلامو فوبیا’ کے عنوان پر ایک عالمی سطح پر ڈائیلاگ کا آغاز کریں۔ او آئی سی نے 15 مارچ کو ہر برس اسلامو فوبیا کے خلاف دن منانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
اس تمام پیش رفت کو پاکستان کے موقف کی کامیابی سمجھا جائے گا۔
براعظم افریقہ کے ملک نائیجر کے دارالحکومت نیامی میں ہونے والے اسلامی ممالک کے وزرا خارجہ کے اجلاس کا جب ایجنڈا جاری کیا گیا تھا تو اس وقت اس میں مسئلہِ کشمیر کا ذکر نہیں تھا جس پر انڈین میڈیا میں اسے پاکستان کی ایک اور ناکامی کہا گیا تھا۔
گذشتہ برس جب متحدہ عرب امارات میں اسلامی ممالک کے درمیان تعاون کی تنظیم کے وزرا خارجہ کا اجلاس ہوا، تو اُس میں میزبان ملک نے انڈیا کی اس وقت کی وزیرِ خارجہ سوشما سوراج کو اس اجلاس سے خطاب کی دعوت دی تھی۔ لہٰذا پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔
تاہم نائیجر کے دارالحکومت نیامی کے اجلاس میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے بظاہر مثبت اشارے نہ ملنے کے باوجود بھی شرکت کی اور اس کے افتتاحی اجلاس میں ایک بھرپور تقریر کی جس میں کشمیر کے تنازعے پر پاکستان کا موقف پیش کیا اور اس کے ساتھ ساتھ روایتی سفارت کاری اور لابنگ کا سلسلہ جاری رکھا جس میں نائیجر کے ساتھ ساتھ ترکی نے بھی پاکستان کی کوششوں کا ساتھ دیا۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جنھوں نے پچھلے مواقع پر پاکستان کی کوششوں کو پذیرائی نہیں دی تھی اس مرتبہ پاکستان کی کوششوں میں رکاوٹ نہیں بنے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کے رخصت ہونے والے سیکریٹری جنرل يوسف بن احمد العثيمين کی کوششوں کو سراہا۔
نیامی اعلامیہ کہلانے والی دستاویز میں دیگر امور کے علاوہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے تنازعے پر پاکستان کے موقف کو اپنایا گیا ہے۔ اس طرح اب یہ مسئلہ پھر سے سفارتی سطح پر عالم اسلام کا ایک مسئلہ سمجھا جا سکے گا۔
مسئلہِ کشمیر پر قرار داد
اس مرتبہ نیامی میں ہونے والے اسلامی وزراءِ خارجہ کے اجلاس کے لیے ’امن و ترقی کے لیے دہشت گردی کے خلاف اتحاد‘ موضوع رکھا گیا تھا۔ اس میں مسئلہ فلسطین سمیت کئی موضوعات پر قراردادیں منظور کی گئی ہیں جن کا نیامی اعلامیے میں ذکر کیا گیا ہے۔
تاہم نیامی اعلامیے میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے تنازعہ کے لیے بقول پاکستان ایک ’اصولی موقف‘ اختیار کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس کا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اس کا ایک ’پرامن تصفیہ‘ ہونا چاہیے۔
نیامی اعلامیے میں انڈیا میں بابری مسجد کے انہدام اور مقدس مقامات کی حفاظت کے بارے میں بھی ایک قرارداد منظور ہوئی ہے۔ غیر اسلامی ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک، اور جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی کا بھی ان قراردادوں میں ذکر موجود ہے۔ اعلامیے میں کشمیر کی حمایت میں پاکستان کی کوششوں کا بھی ذکر ہے۔
انڈیا کا ردعمل
کشمیر پر پاکستان کے موقف کی اس کامیابی پر انڈیا نے سخت ردعمل دیا ہے۔ انڈیا کی امورِ خارجہ کی وزارت کے ترجمان انوراگ سری واستو نے او آئی سی کی مسئلہِ کشمیر کی قرارداد کو مسترد کرنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ’اس میں حقائق غلط، بے معنی اور بلا جواز‘ طریقے سے بیان کیے گئے ہیں۔
انڈیا کے ترجمان نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’یہ قابلِ افسوس بات ہے کہ او آئی سی ایک مخصوص ملک کے ہاتھ مسلسل استعمال ہو رہی ہے، جس کی مذہبی عدم رواداری، شدت پسندی اور اقلیتوں کے ساتھ زیادتیوں کی ایک مکروہ تاریخ موجود ہے، اور وہ انڈیا مخالف پروپیگینڈا میں ملوث ہے۔‘
’پاکستان کی فتح‘
پاکستان کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعت مسلم لیگ نون کے سینیٹر اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ ایک منقسم او آئی سی اور انڈیا کی جارحانہ سفارت کاری کے باوجود پاکستان کا او آئی سی کے وزرا خارجہ کے اس اجلاس سے کشمیر کے بارے میں ایک سخت موقف کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کروا لینا ایک کامیابی ہے۔
’انڈیا اس وقت پریشان ہے کیونکہ اس وقت ایک اہم عالمی فورم سے پاکستانی موقف کو حمایت حاصل ہو گئی ہے، اس طرح انڈیا عالمِ اسلام میں دفاعی حالت اپنانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ کشمیری عوام کے حوصلے بھی بڑھائے گی، اور یہ کامیابی امریکہ میں جو بائیڈن کی کامیابی کے فوراً بعد آئی ہے جہاں جو بائیڈن کا کشمیر کے تنازعے پر موقف سب کے علم میں ہے۔‘
‘او آئی سی کی قرارداد بے معنی ہے’
انڈیا کے تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے سینیئر رکن، صحافی اور تجزیہ کار سوشانت سرین کہتے ہیں کہ او آئی سی کے اعلامیے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
‘او آئی سی کئی دہائیوں سے پاکستان کے کہنے پر بے معنی قسم کے بیانات دیتی رہی ہے اور انڈیا ان پر یہ کہہ کر اپنا ردعمل ظاہر کرتا رہا ہے کہ او آئی سی کی اس معاملے میں مداخلت کرنے کی کوئی جائز حیثیت نہیں ہے۔ اس حد تک یہ ایک روایتی بیان بازی ہے۔‘
سوشانت سرین کہتے ہیں کہ او آئی سی کے ارکان خود انڈیا کو علحیدگی میں بتائیں گے کہ اس قرارداد کے کوئی معنی نہیں ہیں اور ان کے انڈیا سے تعلقات پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ اس طرح ایسی قراردادوں کی لفاظی کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔’
وہ کہتے ہیں کہ ’یہی پاکستانی جو اس وقت جشن منا رہے ہیں وہی او آئی سی کو ایک بغیر دانتوں والا شیر اور ایک غیر موثر تنظیم کہہ کر مسترد کرتے رہے ہیں جب اس میں کشمیر کے معاملے پر غور نہیں ہو رہا تھا۔ اب پاکستان کی لکھی گئی قرارداد کے مسودے کو بغیر بحث کیے منظور کر لیا گیا ہے۔‘
سوشانت سرین کہتے ہیں کہ انڈیا کے نکتہِ نگاہ سے اگر قرارداد میں کشمیر کا ذکر نہ ہوتا تو یہ ایک بڑی خبر ہوتی۔ ’لیکن اس کے باوجود جو بات ناقابلِ تردید پیش رفت ہے وہ یہ کہ انڈیا اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی ہے۔ ان تعلقات میں نہ صرف تزویراتی تبدیلی آ چکی ہے بلکہ اقتصادی اور سلامتی سطح پر بھی تعاون بڑھ چکا ہے۔‘
انڈیا کے تجزیہ کار سوشانت سرین کہتے ہیں کہ ’اس دوران پاکستان کو او آئی سی کے اندر عربوں، ترکی اور ایران کے مختلف دھڑوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن رکھنے کی تگ و دو کرنا پڑ رہی ہے۔ انڈیا کے لیے ترکی کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ اردغان نے تو انڈیا کے لیے ترکی کو بالکل غیر متعلق ملک بنا دیا۔‘
‘اور انڈیا کو ایران سے وہ فائدہ نہیں جو عربوں سے مل سکتا ہے۔ اس لیے جہاں تک عالم اسلام کا معاملہ ہے تو انڈیا کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔’
’زیادہ نہ سہی کچھ تو فائدہ ہے‘
پاکستانی صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرا کے خیال میں ’او آئی سی کے اعلامیے کو ایک طرف تو پاکستان کی اندرونی سیاست میں موجودہ حکومت کی ایک کامیابی کے طور پر دیکھا جائے گا اور دوسری طرف انڈیا میں او آئی سی کے اس موقف سے انھیں گھبراہٹ تو نہیں ہو گی البتہ انھیں ایک لحاظ سے پسپائی ہوئی ہے اس لیے کہ کہاں متحدہ عرب امارات میں وہ وقت تھا جب پاکستان کی سُنی نہیں جا رہی تھا، لیکن اب پاکستان کے موقف کو کامیابی ملی ہے۔‘
نسیم زہرا کہتی ہیں کہ ‘اگرچہ پاکستان کی کامیابی اور انڈیا کی اس پسپائی کو کوئی بہت زیادہ معنی پہنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں کشمیریوں کی کسی حد تک ہمت افزائی ہو گی۔ اس قرارداد سے پاکستان کے موقف کو تقویت تو ملی ہے لیکن اسے ایک بہت بڑی کامیابی سمجھنا درست نہ ہو گا۔ اس سے زیادہ نہ سہی کچھ تو فائدہ ہے۔‘