پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا کہنا ہے کہ سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت ایک حقیقت اور ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو کے دوران پاکستان کی فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ لوگ فوج کے سیاسی معاملات میں مداخلت پر خفا ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس مداخلت سے لوگ ناراض ہیں۔ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ (ان کے بارے میں) یہ تاثر ہے کہ یہ خود نہیں آئے، یہ تو خاکی بوجھ لے کر آئے ہیں۔ کچھ لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی تاریخ بنائیں گے۔‘
اسد درانی کے مطابق ’فوج کی مداخلت تو ہے۔ ہونی چاہیے یا نہیں یہ وہ بحث ہے جو آج تک کسی سمت نہیں بیٹھی ہے۔ تجربہ بھی یہی ہے کہ جب بھی فوج نے مداخلت کی تو دیکھنے میں آیا کہ جن سیاسی جماعتوں کو باہر رکھنے کی کوشش کی گئی وہ واپس آ گئیں۔‘
انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’جیسے کہ ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو باہر رکھنا تھا، وہ واپس آ گئے اور منتخب ہو گئے۔ ضیا الحق کے بعد بی بی (بینیظر بھٹو) تشریف لائیں، مشرف جیسے ہی نکلے ہیں تو جن دو جماعتوں کو ان کا خیال تھا باہر رکھنا چاہیے، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز، دونوں جماعتیں الیکشن لڑ کر منتخب ہو گئیں۔ تو یہ (مداخلت) اتنی نقصان دہ ہے، جب آپ (سیاسی) انجینیئرنگ کریں۔‘
اسد درانی کو سنہ 1988 میں بطور ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلیجنس تعینات کیا گیا تھا۔ جبکہ سنہ 1990 میں انھیں بطور ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیا گیا تھا۔ سنہ 1993 میں ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے بطور پاکستان کے سفیر جرمنی اور سعودی عرب میں بھی اپنے فرائض انجام دیے ہیں۔
اس وقت وہ اپنی حالیہ کتاب ’اونر امنگسٹ سپائیز‘ کے چھپنے کے بعد ایک بار پھر خبروں میں ہیں۔ یہ کتاب ان کی پہلی چھپنے والی کتاب ’سپائی کرونیکلز‘ کے سلسلے کی دوسری کتاب ہے۔
اسد درانی اکثر تنازعات کی زد میں رہتے ہیں، چاہے وہ ان کی چھپنے والی دو کتابوں میں موجود معلومات سے متعلق ہو یا پھر اسامہ بن لادن سے منسلک ان کے بیانات جنھیں وہ اپنا ’تجزیہ‘ کہتے ہیں۔
’پاکستان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے‘
جہاں رہی بات موجودہ حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن (پی ڈی ایم) کے جاری جلسوں کی تو حزب مخالف کی جماعتوں کے رہنما فوج پر سیاسی معاملات میں مداخلت کی بات کر رہے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے پی ڈی ایم کے ایک جلسے کے دوران براہِ راست پاکستانی فوج کے سربراہ پر ان کی حکومت کو گرانے اور سنہ 2018 کے انتخابات میں عمران خان کو کامیاب کروانے کا الزام عائد کیا تھا۔ انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ فوج کے کہنے پر عدلیہ ان کے خلاف مقدمات چلا رہی ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اسد درانی نے کہا کہ ’جب یہ (فوج) نہیں ہوتے تب بھی لگتا ہے کہ ان کا کوئی کردار ہے۔ آئی ایس آئی ایک ایسا ادارہ ہے جو بنیادی طور پر غیر ملکی انٹیلیجنس (کو کاؤنٹر کرنے) کے لیے ہے۔ کیونکہ اس میں زیادہ تر فوج کے لوگ شامل ہیں اور حاضر سروس افسران ہیں، خاص طور سے ان کا سربراہ۔ تو اگر اس قسم کی (سیاسی انجینیئرنگ) کا کام ان کو مل جائے، زیادہ یا کم، تو ضرور کر سکتے ہیں۔‘
پی ڈی ایم کی تحریک سے متعلق انھوں نے کہا کہ ’مولانا فضل الرحمان کا تجربہ اس فیلڈ میں ہم سب سے زیادہ ہے۔ وہ دھرنا کرنے کے لیے ان (یعنی آئی ایس آئی) کی بات کیوں سنیں گے۔ عام تاثر یہی ہے کہ آئی ایس آئی کے بغیر (دھرنا) نہیں ہو سکتا۔ جیسے اس سے پہلے کہا جاتا تھا کہ امریکہ کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔‘
پاکستان کی حالیہ صورتحال پر ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور مسائل ہمیشہ رہتے ہیں۔ ایک بات تو پکی ہے کہ سب سے زیادہ خطرناک مسئلہ ہوتا بھی اندر ہی ہے۔‘
اسد درانی نے مزید کہا کہ ’اس وقت سیاسی طور پر کچھ لوگ ناراض ہیں۔ کچھ علاقے، جیسا کہ بلوچستان، میں بدامنی ہے۔ سیاسی طور پر اجنبیت کا سامنا ہے۔‘
’معیشت واقعی خراب ہے۔ یہ نہیں کہ معیشت ٹھیک ہو جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ لیکن جب حکومت پر اعتبار نہ ہو اور کہا جائے کہ یہ تو فوج لے کر آئی ہے اور یہ کیسا لیڈر ہے جو ہر چیز پر کہتا ہے کہ جی میں یوٹرن لوں گا تو لیڈر بن جاؤں گا ورنہ نہیں بنوں گا۔ ہر چیز پر واپس ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی حکومت پر اعتبار تو نہیں رہتا۔ اب یہ ہوا ہے کہ یہ تمام تر مسائل ایک ساتھ اکٹھا ہو گئے ہیں۔‘
’انڈیا اب بڑا خطرہ نہیں‘
سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ملک کی اندرونی سلامتی کو لاحق خطرات اس وقت ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں جن سے نمٹنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
انٹرویو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کو لاحق اندرونی و بیرونی خطرات میں سے ان کے خیال میں اس وقت زیادہ بڑا خطرہ کون سا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا اب اتنا بڑا خطرہ نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ پانچ اگست 2019 کو انڈیا کی طرف سے کشمیر کے الحاق کی کوشش کے بعد انڈیا کے لیے خود اتنے بڑے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں کہ وہ اب ہمارے لیے خطرہ نہیں رہا۔
’کشمیر پر جو کچھ انڈیا نے کیا اس کے بعد مشرقی سرحد پر ہمارے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کبھی اگر وہ بالا کوٹ جیسا کچھ کرنا چاہیں تو اس کے لیے تیاری کر رکھیں ورنہ وہ اپنی چیزوں میں اتنے زیادہ پھنسے ہوئے ہیں کہ انھیں پاکستان کی اتنی فکر نہیں ہے۔‘
اسد درانی کے مطابق ’اگر آپ پاکستان کے باہر سے لاحق خطرات کی بات کرتے ہیں تو کچھ دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔‘
جنرل درانی کے بقول ان میں ایران، ترکی اور سعودی عرب بڑے اور نئے چیلنجز ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ویسے بھی انڈیا ہمیشہ اور ہر وقت ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ نہیں رہا۔‘
ملک کو لاحق اندرونی چیلنجز کی تفصیل بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ملک کو تین طرح کے چینلجز کا سامنا ہے جن میں معیشت، سیاسی عدم استحکام اور سماجی ہم آہنگی بڑے مسائل ہیں، کیونکہ یہ سب اکٹھے ہو گئے ہیں۔‘
’کچھ لوگ سیاسی طور پر ناراض ہیں۔ کچھ علاقے ہیں جیسا کہ بلوچستان، وہاں لوگوں میں بےچینی پیدا ہے، کچھ لوگ جن کا میں ذکر پہلے بھی کر چکا ہوں، سیاسی طور پر اپنے آپ کو اجنبی اور الگ تھلگ محسوس کر رہے ہیں۔ معیشت واقعی خراب ہے۔۔۔ حکومت کی کریڈیبیلٹی خراب ہے کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ انھیں فوج لے کر آئی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا کو تو ہم نے سنبھال لیا ہے۔۔۔ انڈیا کے متنازع شہریت کے قانون کے بعد تو مسلمانوں کے علاوہ باقی اچھے لوگ بھی بدظن ہو گئے ہیں۔ تو ان حالات میں آپ مجھ سے پوچھیں کہ میں کیا کروں گا؟ تو میں کہوں گا اب آرام سے بیٹھ جائیں۔ کیونکہ تاحال مشرقی سرحد سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر دوبارہ بالاکوٹ جیسا واقعہ کریں گے تو اس کی تیاری کر لیں۔ وہ اس وقت خود اتنا پھنسے ہوئے ہیں اپنی چیزوں میں کہ انھیں پاکستان کی اتنی فکر نہیں ہے۔ پاکستان کو اپنی فکر ہے۔ لیکن اگر ہم نے باہر ہی دیکھنا ہے، تو ہمارے پاس ایک دو چیلنجز اور ہیں۔ ایک نیا چیلنج ہے ایران، سعودی عرب، ترکی اس طرح کے مسائل ہیں۔‘
’تاثر ہے کہ امریکہ کی سنتے ہیں‘
ایران سے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسد درانی نے کہا کہ ’ایران میں انقلاب کے بعد ہمارے ایران سے بننے والے تعلقات امریکہ کی مرضی کے برخلاف تھے۔ کیونکہ انھوں (امریکہ) نے کہا کہ 400 سے زیادہ دن (ایران نے) ہمارے سفارتخانے کو یرغمال بنایا۔ ہم (پاکستان) نے کہا (ایران) ہمارا پڑوسی ہے۔ ہم نے تو رابطہ رکھنا ہے۔‘
’1950 کی دہائی میں جب ہمارے چین کے ساتھ تعلقات بنے تو امریکہ کافی ناراض تھا۔ ایک دن ہمارے پاس آیا اور کہا کہ ہماری بھی بات کروا دیں۔‘
پاکستانی طالبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’سب لوگوں کی مرضی کے بغیر اگر طالبان کی حمایت کی ہے تو (اس بارے میں) ہم نے امریکہ کی بات تو نہیں سنی۔ لیکن تاثر یہ ہے کہ پتا نہیں ہم کتنا امریکہ کی سنتے ہیں۔‘
’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کبھی کبھار کچھ لوگوں کی کمزوری ہوتی ہے امریکہ کی بات سننا۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کے کام نہیں ہو پاتے۔ اس لیے وہ ان کی جیسی بھی بات ہو وہ مان لیتے ہیں۔‘
’گلگت بلتستان کی حیثیت بدلنے سے مسئلہ کشمیر کو دھچکا لگے گا‘
حال ہی میں گلگت بلتستان کو عارضی طور پر صوبہ بنانے کی بات کی جا رہی ہے۔ اس بارے میں جہاں ملک میں آرا منقسم ہے وہیں اسد درانی نے اسی سے منسلک ایک قصہ سنایا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میں کشمیر کے معاملات دیکھ رہا تھا تب مجھے ایک قریبی دوست یوسف سمجھایا کرتا تھا کہ جس دن گلگت بلتستان کی حیثیت تبدیل کرنے کی گڑبڑ کی اس دن ہمارے کشمیر کاز کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔’
‘کچھ چیزوں کی حیثیت مت تبدیل کریں کیونکہ جب بھی آپ کسی چیز کی حیثیت سیاسی وجہ سے اس لیے تبدیل کریں گے کہ ہم نے نمبر بنانے ہیں، اس کا نقصان ہو گا۔ بہاولپور اور سوات بڑی اچھی ریاستیں تھیں انھیں مرکزی دھارے میں شامل کیا گیا اور یہ مرکز بدعنوانی میں شامل ہیں تو نقصان ہوا۔‘
’بلوچستان کا نظام تین انداز میں بہتر ہینڈل ہو سکتا تھا، سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر۔ لیکن ہم نے پکڑ کر ایک صوبہ بنا دیا اور آج تک نہیں سنبھالا جا رہا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سابق فاٹا کے بارے میں بھی میں کہتا تھا کہ یہ مت کرو، اس کو صوبے میں ضم مت کرو۔ اس کی اپنی خصوصی حیثیت ہے، بعض حالات میں وہ ہم سے بہتر چل رہا ہے جو کہ پانچ سو سال کا پُرانا نظام ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کا نظام بھی اس طرز کا نہیں کہ لوگ اس نظام کا حصہ بننا چاہیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر گلگت بلتستان کو زیادہ حقوق دینے ہیں تو بے شک دیں لیکن ان کو زبردستی پاکستان کا صوبہ نہ بنائیں۔‘
اسد درانی کے مطابق حالیہ دنوں میں لیے گئے چند اقدامات موجودہ حکومت کی صلاحیت میں کمی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ’جب یہ اور کچھ نہیں کر سکتے تو حیثیت بدل دیتے ہیں یا پھر کسی جگہ کشمیر کے بجائے سری نگر لکھ دیتے ہیں یا نقشہ تبدیل کر دیتے ہیں۔ یہ مختلف ہتھکنڈے ہیں جو وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جو خود میں صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کا متبادل تلاش کرتے ہیں۔ تو اس کا کوئی فائدہ تو نظر نہیں آ رہا۔‘
انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ون یونٹ بے ایمانی کی وجہ سے بنایا گیا۔ کیونکہ ہم نے بنگالیوں کی اکثریت کو منھ توڑ (جواب) دینا تھا۔ بلوچستان کو اکٹھا کر دیا گیا کیونکہ اس کے پیچھے سوچ تھی کہ ان کی الگ سے دیکھ بھال کون کرے گا۔ حالانکہ پہلے یہ ایک نظام کے تحت موجود تھے۔ اگر تو آپ کا نظام اچھا ہو اور لوگ دیکھ کر کہیں کہ ہم آپ کے ساتھ آنا چاہتے ہیں پھر تو ٹھیک ہے۔ لیکن لوگوں کے ساتھ زبردستی نہ کریں۔‘
’پاکستان طالبان کو میز پر بٹھانے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا‘
افغانستان میں جاری امن عمل پر بات کرتے ہوئے اسد درانی نے کہا کہ ’پاکستان یہ کر سکتا ہے کہ مجاہدین اور طالبان پر اپنے اثر کا استعمال کرتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہے کہ باقیوں سے بات کر کے آپ جو فیصلہ کریں گے ہمیں منظور ہے۔ اس سے زیادہ پاکستان کچھ کر بھی نہیں سکتا۔‘
’ہم نے ہمیشہ مجاہدین کے ساتھ بھی تعلق رکھا، ان کی مدد بھی کی کیونکہ وہ غیر ملکی فورسز کو نکال رہے تھے۔ طالبان کے ساتھ بھی یہی کیا۔ سب پریشر کے باوجود ہم نے ان کے ساتھ اپنا اثر و رسوخ بھی قائم رکھا اور اپنا تعلق بھی قائم رکھا۔‘
’سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانا بہت آسان ہے‘
چند ماہ قبل شائع ہونے والی اپنی کتاب ’اونر امنگسٹ سپائیز‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جب تک کسی کتاب میں تنازع نہ ہو تو فائدہ کیا ہے؟‘
’وہ تو پھر ایک سرکاری قسم کی تحریر ہو گی جو آپ آئی ایس پی آر سے لے لیں یا سرکار سے لے لیں۔ تنازع تو آپ کو پیدا کرنا ہے تاکہ بحث ہو سکے۔‘
اس سے پہلے بھی اسد درانی پر اپنی کتاب ’دی سپائی کرانیکلز‘ میں ’حساس نوعیت کی معلومات‘ لکھنے پر پاکستان کی فوج نے ان سے جواب طلب کیا تھا۔
اس کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’جہاں تک ریاست کے راز افشا کرنے کی بات ہے، تو شور بہت مچا لیکن کسی نے آج تک بتایا نہیں کہ اس کتاب میں ریاست سے منسلک کون سے راز تھے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت لوگوں پر مقدمہ چلانا سب سے آسان کام ہے۔ جتنی باتیں راز تھیں وہ بھی آہستہ آہستہ کسی نے اِدھر سے بتا دیں، کسی نے اُدھر سے، تو رازداری کی کوئی بات نہیں ہے۔ گذشتہ سات آٹھ برسوں میں مجھے اسامہ بن لادن والی بات پر کافی لوگوں نے تنگ کیا ہوا ہے۔ حالانکہ میں نے صرف اپنا تجزیہ دیا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مجھے ایسا لگتا ہے کہ اپنا تجزیہ دے کر میں نے کسی کمزوری کو ظاہر کر دیا ہے یا دُم پر پاؤں رکھ دیا ہے۔ میں نے ایک تجزیہ دیا جس کی بنیاد اس بات پر تھی کہ اگر میں اس وقت ہوتا تو کیا کرتا؟‘
انھوں نے کہا کہ ’ضروری نہیں کہ کوئی اندر کی معلومات ہوں تب ہی بات کریں گے۔ بلکہ اندر کی معلومات تو اکثر غلط ہوتی ہے۔ لیکن جو صورتحال کے متعلق آپ کا اندازہ ہوتا ہے وہ بہتر نکل آتی ہے۔‘
کتاب سے منسلک تنازعات کے بارے میں انھوں نے مرزا غالب کا شعر دہرایا کہ ’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں۔۔۔ کچھ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا۔‘
’یہ کہنا کہ مجھے کوئی نقصان ہوا ہے، نہیں، مجھے فائدہ ہوا ہے‘
انھوں نے کہا کہ ’فوج کے اندر کئی لوگوں نے اپنی کتابیں لکھیں اور کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ انھوں نے کیا لکھا ہے۔‘
’مشرف کی کتاب کسی نے نہیں دیکھی تھی۔ شاہد عزیز کی بڑی تنقیدی کتاب ہے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ اس کا حق ہے، یہ لکھ سکتا ہے۔ لیکن آج تک کسی نے روکا نہیں ہے۔ مجھے ریٹائرمنٹ کے وقت اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے کہا تھا کہ تمھیں خود دیکھنا ہے کہ اپنی بات کہاں تک لکھنی ہے اور کہاں تک نہیں۔ اپنا سینسر خود ہی کرو اور اصول بھی یہی ہے۔‘
اونر امنگسٹ سپائیز کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ میرا تجویز کردہ ٹائٹل نہیں تھا۔ میرا ٹائٹل تو کچھ اور ہونا تھا: ’اے ٹیل آف ٹُو بُکس‘ جو میں نے تجویز کیا۔
’کیونکہ یہ پہلی دو کتابوں پر مبنی ہے۔ لیکن پھر بات ہوئی کہ پہلے والا اچھا ٹائٹل ہے۔ اس کتاب میں یہی لکھا ہے کہ کون سی چیز پر تکلیف تھی اور کس پر نہیں۔ کس بات کو بہانہ بنا کر کچھ کر سکتے ہیں اور کس پر نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس افسانوی کہانی کا مرکزی کردار اسامہ بن لادن ہے۔ جس کے لیے میں نے فکشنل کردار بنایا ہے، عظمیٰ بنتِ لادن۔ خاتون جنگجو، دہشت گرد، آزادی پسند۔‘
’ہمیشہ سے ہمارے جہادیوں میں (خواتین کا کردار رہا ہے) اور ہندوستان میں بھی رضیہ سلطانہ، چاند بی بی کا ذکر کرتے ہیں۔ خواتین جہادیوں کو تو لیلیٰ خالد نے بہت متاثر کیا تھا۔ لیلٰیٰ خالد فلسطینی تھی اور اس کہانی میں اس کا ذکر بھی ہے۔‘