What's Hot

    اسد محمد خاں: تہذیب، تاریخ اور فرد سے مکالمہ

    ستمبر 22, 2023

    سیاسی جماعتوں کا امتحان

    ستمبر 21, 2023

    کاپی رائیٹ، مورل رائیٹ، پلیجرازم اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا چیلنج

    ستمبر 20, 2023
    Facebook Twitter Instagram
    afkar pak
    • افکار عالم
    • پاکستان
    • تراجم
    • خصوصی فیچرز
    • فن و ثقافت
    • نقطہ نظر
    Facebook Twitter Instagram
    afkar pak
    Home»پاکستان»متشدد مذہبیت کا بیانیہ…چند جھلکیاں
    پاکستان

    متشدد مذہبیت کا بیانیہ…چند جھلکیاں

    ڈاکٹر محمد عمار خان ناصرBy ڈاکٹر محمد عمار خان ناصردسمبر 8, 2021کوئی تبصرہ نہیں ہے۔3 Mins Read
    Share
    Facebook Twitter LinkedIn Pinterest Email

    برادرم فرنود عالم نے Dw کے لیے لکھے گئے ایک کالم میں گزشتہ ایک صدی میں متشدد مذہبیت کا بیانیہ بننے کے عمل کی کچھ جھلکیاں دکھانے کی کوشش کی۔ مختلف زاویوں سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود ہمارے نزدیک یہ کام اس صورت حال کے صحیح تجزیے کے لیے ضروری ہے۔ بلکہ hindsight کے اس عمل کو مزید پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں دو مزید زاویے، اختلاف کی گنجائش رکھتے ہوئے، ہمارے سامنے ہونے چاہییں۔

    فرنود عالم/ DW

    ایک زاویہ ہندو قوم پرستوں، خصوصا آریہ سماج کا ہے جو غازی علم دین کے قضیے میں مسلمانوں کو "شہ” دینے کے لیے گاندھی جی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اس بیانیے کے مطابق بات 1920 میں مسلمانوں کی طرف سے دو تین پمفلٹ مثلا "کرشنا تیری گیتا جلانی پڑے گی” اور "انیسویں صدی کا لمپٹ مہارشی” کی بڑے پیمانے پر تقسیم سے شروع ہوئی جن میں ہندو دیویوں اور آریہ سماج کے لیڈر دیانند سرسوتی کے متعلق نازیبا اور اشتعال انگیز زبان استعمال کی گئی۔ اس سلسلے میں مہاتما گاندھی سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے یہ کہہ کر معاملہ ٹال دیا کہ ہندوستان میں سب کو فریڈم آف اسپیچ حاصل ہے۔

    اس کے ردعمل میں ہندوؤں کی طرف سے رنگیلا رسول جیسی کتابیں لکھی گئیں جو کئی ماہ تک کسی قسم کے ردعمل کے بغیر چھپتی رہیں، تاآنکہ گاندھی جی نے "ینگ انڈیا” میں مضمون لکھ کر مسلمانوں کو اس کی طرف متوجہ کیا اور انھیں اس کے خلاف بھڑکایا۔ تبھی تحریک خلافت اور جماعت احمدیہ کے ذمہ داران اور دیگر بہت سے مسلم لیڈروں نے اس پر احتجاجی تحریک منظم کی۔ کتاب کے ناشر راجپال کے خلاف لاہور کی لوئر کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا اور جب عدالت نے اس عمل کے، کسی موجود قانون کے تحت جرم نہ ہونے پر راج پال کو بری کر دیا تو گاندھی جی نے ینگ انڈیا میں دوبارہ مضمون لکھا اور کہا کہ یہ فیصلہ مسلمانوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر انگیخت کر رہا ہے۔ اس دوران میں راج پال پر چار قاتلانہ حملے ہوئے جن کی مذمت میں گاندھی جی نے ایک بھی لفظ نہیں کہا۔

    1927 میں 295A کو قانون کا حصہ بنایا گیا اور اس کے تحت 1929 میں لاہور ہائی کورٹ نے مسلمان علماء سے پوچھا کہ کیا رنگیلا رسول میں کوئی بات تاریخی طور پر غلط یا خلاف واقعہ ہے؟ ایسی کسی بات کی نشاندہی نہ ہونے پر ہائی کورٹ نے راج پال کو بری کردیا جس کے بعد غازی علم دین کے پانچویں قاتلانہ حملے میں راج پال جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

    ہندوؤں کی طرف سے غازی علم دین کے خلاف مقدمہ درج کروایا گیا تو گاندھی جی نے وائسرائے کو خط لکھ کر اس کی معافی کی درخواست کی اور ینگ انڈیا میں پھر ایک مضمون لکھا کہ علم دین ایک ناسمجھ اور جذباتی نوجوان ہے جس نے اشتعال میں آ کر راج پال کو قتل کر دیا ہے، اس لیے اس کو سزا نہیں ملنی چاہیے۔اس پورے نقطہ نظر کو اس مختصر کلپ میں بھی سنا جا سکتا ہے.

    اس پورے نقطہ نظر کو اس مختصر کلپ میں بھی سنا جا سکتا ہےhttps://youtu.be/Yvrw_Uz-gb8اور اس بلاگ میں بھی ان تمام تفصیلات کا ذکر تاریخی حوالوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔https://kreately.in/rangeela-rasool-controversy-exposed…/

    Share. Facebook Twitter Pinterest LinkedIn Tumblr Email
    ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

    لکھاری معروف علمی و تحقیقی مجلہ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے مدیر ہیں۔

    Related Posts

    سیاسی جماعتوں کا امتحان

    ستمبر 21, 2023

    ایک لاپتہ شخص کی دہائی

    ستمبر 18, 2023

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسی: مسائل اور توقعات

    ستمبر 17, 2023

    عطار کے لونڈے۔۔۔!

    ستمبر 7, 2023
    Add A Comment

    Leave A Reply Cancel Reply

    Top Posts

    Subscribe to Updates

    Get the latest sports news from SportsSite about soccer, football and tennis.

    Advertisement
    Demo
    • افکار عالم
    • پاکستان
    • تراجم
    • خصوصی فیچرز
    • فن و ثقافت
    • نقطہ نظر
    Facebook Twitter
    • ہمارے بارے میں
    • رابطه
    • استعمال کی شرائط
    • پرائیویسی پالیسی

    © جملہ حقوق  بحق       Dtek Solutions  محفوظ ہیں 2022