برادرم فرنود عالم نے Dw کے لیے لکھے گئے ایک کالم میں گزشتہ ایک صدی میں متشدد مذہبیت کا بیانیہ بننے کے عمل کی کچھ جھلکیاں دکھانے کی کوشش کی۔ مختلف زاویوں سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود ہمارے نزدیک یہ کام اس صورت حال کے صحیح تجزیے کے لیے ضروری ہے۔ بلکہ hindsight کے اس عمل کو مزید پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں دو مزید زاویے، اختلاف کی گنجائش رکھتے ہوئے، ہمارے سامنے ہونے چاہییں۔
ایک زاویہ ہندو قوم پرستوں، خصوصا آریہ سماج کا ہے جو غازی علم دین کے قضیے میں مسلمانوں کو "شہ” دینے کے لیے گاندھی جی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اس بیانیے کے مطابق بات 1920 میں مسلمانوں کی طرف سے دو تین پمفلٹ مثلا "کرشنا تیری گیتا جلانی پڑے گی” اور "انیسویں صدی کا لمپٹ مہارشی” کی بڑے پیمانے پر تقسیم سے شروع ہوئی جن میں ہندو دیویوں اور آریہ سماج کے لیڈر دیانند سرسوتی کے متعلق نازیبا اور اشتعال انگیز زبان استعمال کی گئی۔ اس سلسلے میں مہاتما گاندھی سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے یہ کہہ کر معاملہ ٹال دیا کہ ہندوستان میں سب کو فریڈم آف اسپیچ حاصل ہے۔
اس کے ردعمل میں ہندوؤں کی طرف سے رنگیلا رسول جیسی کتابیں لکھی گئیں جو کئی ماہ تک کسی قسم کے ردعمل کے بغیر چھپتی رہیں، تاآنکہ گاندھی جی نے "ینگ انڈیا” میں مضمون لکھ کر مسلمانوں کو اس کی طرف متوجہ کیا اور انھیں اس کے خلاف بھڑکایا۔ تبھی تحریک خلافت اور جماعت احمدیہ کے ذمہ داران اور دیگر بہت سے مسلم لیڈروں نے اس پر احتجاجی تحریک منظم کی۔ کتاب کے ناشر راجپال کے خلاف لاہور کی لوئر کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا اور جب عدالت نے اس عمل کے، کسی موجود قانون کے تحت جرم نہ ہونے پر راج پال کو بری کر دیا تو گاندھی جی نے ینگ انڈیا میں دوبارہ مضمون لکھا اور کہا کہ یہ فیصلہ مسلمانوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر انگیخت کر رہا ہے۔ اس دوران میں راج پال پر چار قاتلانہ حملے ہوئے جن کی مذمت میں گاندھی جی نے ایک بھی لفظ نہیں کہا۔
1927 میں 295A کو قانون کا حصہ بنایا گیا اور اس کے تحت 1929 میں لاہور ہائی کورٹ نے مسلمان علماء سے پوچھا کہ کیا رنگیلا رسول میں کوئی بات تاریخی طور پر غلط یا خلاف واقعہ ہے؟ ایسی کسی بات کی نشاندہی نہ ہونے پر ہائی کورٹ نے راج پال کو بری کردیا جس کے بعد غازی علم دین کے پانچویں قاتلانہ حملے میں راج پال جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
ہندوؤں کی طرف سے غازی علم دین کے خلاف مقدمہ درج کروایا گیا تو گاندھی جی نے وائسرائے کو خط لکھ کر اس کی معافی کی درخواست کی اور ینگ انڈیا میں پھر ایک مضمون لکھا کہ علم دین ایک ناسمجھ اور جذباتی نوجوان ہے جس نے اشتعال میں آ کر راج پال کو قتل کر دیا ہے، اس لیے اس کو سزا نہیں ملنی چاہیے۔اس پورے نقطہ نظر کو اس مختصر کلپ میں بھی سنا جا سکتا ہے.
اس پورے نقطہ نظر کو اس مختصر کلپ میں بھی سنا جا سکتا ہےhttps://youtu.be/Yvrw_Uz-gb8اور اس بلاگ میں بھی ان تمام تفصیلات کا ذکر تاریخی حوالوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔https://kreately.in/rangeela-rasool-controversy-exposed…/