سعود عثمانی
میں نے مسودے سے نظر ہٹائی اور فاختاؤں کے جوڑے کی طرف دیکھا جو ابھی ابھی لان میں اپنے لیے رکھے گئے آب و دانہ پر اترا تھا۔ وہ میرے مستقل مہمان تھے اور اب مجھ سے مانوس بھی۔ مجھے ان کا انتظار رہتا تھا لیکن سچ یہ کہ میرا دھیان اس وقت ان کی طرف نہیں تھا۔ میرا دل تو اس لمحے کوہاٹ اور پشاور کی گلیوں میں گھوم رہا تھا۔ میں مس گراں بازار میں تانبے کے بڑے بڑے پتیلے اور پتیلیاں چمچماتے دیکھتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ مس گراں بازار اندرون لاہور کے کسیرا بازار سے ملتا جلتا ہے جہاں میرا بچپن اپنی امی کی انگلی پکڑے حیرت سے دائیں بائیں جگمگاتے برتنوں کو دیکھتا اور چلتا جاتا تھا۔ میں اس سمے خیال کی جس دنیا میں تھا، اس میں کبھی خود کو کوہاٹ کے ایک گھر میں دیکھتا تھا جہاں کچالو کے بڑے بڑے پتوں میں گوشت تازہ تازہ کٹ کر آتا تھا اور جہاں تنور سے سرخ لپٹیں اور خمیری روٹیوں کی مہک اٹھتی تھی۔ کبھی میں شاہ پور گاؤں جانے کے لیے راہ کی ندی پار کرتا تھا اور صاف ٹھنڈا پانی میری پنڈلیوں تک مجھے سرد کردیتا تھا۔ کبھی سردیوں کی دوپہر میں گہری سرخ کانجی، کالی گاجر کے ٹکڑوں کے ساتھ شیشے کے گلاس میں شراب ارغوانی کی طرح میرے سامنے پیش کی جاتی اور کبھی سرد رات کو منقش چینی کے بڑے پیالے میں دودھ جلیبی مجھے سیراب کر رہی ہوتی۔
نصرت نسیم کی خود نوشت ”بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں‘‘ نے میری انگلی پکڑی اور مجھے اس زمانے میں لے گئی جو میں نے بھی کافی حد تک دیکھا ہے۔ میں ان شہروں بستیوں اور قصبوں میں پھرتا رہا جن میں سے کچھ میں نے آج تک نہیں دیکھے۔ کیسی کمال کی خود نوشت ہے جس میں منظر سامنے آتے جاتے اور پھر منجمد ہوتے جاتے ہیں۔ چلتے پھرتے باتیں کرتے کردار نکلتے ہیں، اپنے روپ بہروپ کے ساتھ آپ کو مبہوت کرتے ہیں اور پھر مجسمے بنتے جاتے ہیں۔ جیسے رقص کرتے زندہ مور یک دم پتھر کے ہو جائیں اور ان کے ساتھ پس منظر اور پیش منظر بھی پتھرا جائیں۔
نصرت نسیم کی کمال منظر نگاری کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی لیکن میرا ذہن ایک اور نکتے پر ٹھہر گیا ہے۔ میرے ذہن میں بہت سی خود نوشتیں گھوم رہی ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک۔ مرقع نگاری اور مرصع نگاری کی بڑی بڑی مثالیں۔ دلی، لکھنؤ، الٰہ آباد، لاہور، کراچی سمیت بہت سے شہروں کے زمانے، احوال اور شخصیات بیان کرتی خود نوشتیں۔ اعلیٰ نثر نگار خواتین کی خود نوشتیں جن میں وہ سارا دور مجسم ہوتا جاتا ہے جن سے وہ گزری تھیں۔ کون سا شہر ایسا نہیں جسے تجسیم نہ کیا گیا ہو‘ لیکن کیا ان میں کوئی اعلیٰ نثر نگار خاتون پشاور یا کوہاٹ یا خیبر کے کسی شہر یا قصبے سے تعلق رکھتی تھیں؟ کیا وہ زمانہ، وہ ثقافت، وہ رسم و رواج جو پشتون نژاد خوبصورت شہروں سے جڑے ہوئے تھے، کسی خود نوشت میں کسی خاتون نے بیان کیے؟ میں یاد کرتا رہا لیکن مجھے کوئی ایسی خود نوشت یاد نہ آئی۔ نصرت نسیم کی گاہے گاہے باز خواں اس لڑی میں ایک انفرادیت کی حامل ہے۔ یہ ان علاقوں کی روداد ہے جن کی اپنی تہذیب اور ثقافت ہے اور جنہیں کسی لکھنے والی نے پہلے اس طرح بیان نہیں کیا۔ سو بہترین نثر پر مشتمل اس خود نوشت گاہے گاہے باز خواں کی صرف داد ہی نہیں بنتی بلکہ یہ ایک مثال بھی بنتی ہے کہ غیر روایتی شہروں کی خواتین جو روایتی جکڑ بندیوں کی اسیر سمجھی جاتی ہیں اگر لکھنا چاہیں تو کس طرح اپنی بات سینکڑوں دلوں میں اتارتی ہیں۔
”ہماری ایک خالہ کو چٹنی بنانا اور کھانا بہت پسند تھا۔ دس بجے کے قریب وہ ٹماٹر کی چٹنی بناتیں۔ کبھی اس میں امردو، کبھی انار دانہ شامل کرتیں‘ اور رات کی باسی روٹی کے ساتھ مزے سے کھاتیں۔ کوہاٹ کے تنور کی خمیری سرخ سرخ روٹی اپنی الگ انفرادیت رکھتی ہے۔ اکثر اس کو ناشتے میں گھی میں تل کر کھایا جاتا۔ ہاں چٹنی جب خاص موقعوں پر بنتی تو اس میں اخروٹ بھی ڈالتیں‘‘’
‘ہلکی خنکی کے لیے ہلکی اور سخت جاڑے کے لیے بھاری بھاری مخمل اور شنیل کے لحاف بھروائے جاتے۔ بعد ازاں طرح طرح کے ڈیزائن ڈال کر ڈورے ڈالے جاتے۔ سینے کے لیے بڑی بڑی سوئیاں اور موٹے دھاگے ہوتے۔ سیتے سیتے انگلیاں زخمی ہو جاتیں اس لیے انگلیوں میں انگشتانے (پیتل کی ٹوپی سی جسے انگلیوں پر چڑھایا جاتا) پہن لیے جاتے… سردیوں ہی میں کدو کش کی ہوئی مولی اور مولی کے پراٹھے، جوار اور باجرے کی میٹھی اور نمکین روٹیاں، پتیسے، سوجی‘ نشاستے، بیسن اور پیٹھا کدو کے حلوے بنتے تھے‘‘
”لگتا ہے کہ بچے سبزیاں اور ان کے نام بھی بھول جائیں گے۔ امی پکایا کرتیں خیزیاں، مونگرے، لختیاں۔ آخرالذکر پہاڑوں پر اگنے والی انتہائی لذیذ سبزی ہے۔ اسی طرح سبز چنے بازار میں آتے۔ کچے سبز چنے بہت لذیذ ہوتے ہیں۔ ان کا سالن بنایا جاتا۔ طرح طرح کے ساگ‘ چونگاں قیمے کے ساتھ اہتمام سے بنتیں۔ پھپھو اماں کریلے کے چھلکے، آلو کے چھلکے کڑچھی میں بھون لیتیں‘‘
”کوہاٹ سے صبح 7 بجے ریل گاڑی روانہ ہوتی اور 12 بجے تک ٹل پہنچتی۔ اس لائن پر استرزی، رئیساں، ہنگو، دوآبہ درسمند کے خوب صورت راستوں سے گزرتی ۔کبھی چشموں اور آبشاروں کے قریب سے اور کبھی پھلوں سے لدے ہوئے باغات میں سے یوں گزرتی کہ شاخیں ڈبوں سے ٹکراتیں۔ اتنا حسین اور خوبصورت راستہ شاید ہی کوئی ہو‘‘
”دلہا دلہن کو چارپائی پر (اب صوفوں پر) بٹھا دیتے۔ خاندان کی سب سے خوش قسمت بھاگوان عورت سوئی دھاگہ لے کران دونوں کو ٹک لگاتی ہے۔ اس رسم کو بھی ٹک لگانا کہتے ہیں۔ دھاگے کو گانٹھ نہیں لگائی جاتی۔ ٹک لگانے والی عورت پشت پر کھڑے ہوکر دلہا کی شیروانی اور دلہن کی بنارسی کو ٹانکا لگاتی ہے۔ اب دلہا سے کہا جاتا ہے کہ وہ کھڑا ہو۔ وہ کھڑا ہوتا ہے، دھاگہ نکل جاتا ہے۔ اب دوبارہ بیٹھ جاتا ہے اور وہ عورت دوبارہ دونوں کو ایک ٹانکے سے جوڑتی ہے۔ سہ بارہ اس عمل کو دہرایا جاتا ہے اور تالیوں کی گونج میں یہ رسم پایۂ تکمیل تک پہنچتی ہے… فرش پر چینی کی ایک پلیٹ الٹی کرکے رکھی ہوئی ہے۔ دلہا نے اترتے ہوئے پاؤں پلیٹ پر ایسے رکھنا ہوتا ہے کہ پلیٹ ایک ہی چھناکے میں ٹوٹ جائے… سنہری خوب صورت چنگیر میں پھلیاں، خشک میوہ جات، ٹافیاں رکھی ہوتی ہیں۔ دلہن گھونگٹ نکالے اپنے حنائی ہاتھوں سے مٹھیاں بھر بھر کر اپنے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں پھینکتی ہے اور مہمان ان چیزوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر میں جب تھوڑے سے بچ جاتے ہیں تو چنگیر کو اپنے سر کے اوپر سے لے جاتے ہوئے پھینک دیتی ہے‘‘
اگر میرا خیال درست ہے تو یہ خالص اور اعلیٰ اقدار والے پشتون گھرانے سے تعلق رکھنے والی کسی تعلیم یافتہ خاتون کی اعلیٰ اردو میں پہلی خود نوشت ہے۔ نصرت نسیم نے اپنی تہذیب اپنے لفظوں میں گوندھی ہے اور ایسے خوب صورت لب و لہجے اور اسلوب میں کہ ان پر اہل زبان ہونے کا گمان گزرتا ہے۔
فاختاؤں کا جوڑا دانہ چگ کر اڑ چکا ہے‘ اور میں کتاب میں یعنی انہی گلیوں بازاروں میں گم ہوں اور اپنے خیالوں میں مصنفہ سے مکالمہ کرتا ہوں۔ نصرت نسیم! دنیا میں آتے جاتے کرداروں کا تانتا تو یونہی بندھا رہے گا۔ لکھنے والے اپنے حصے کے لفظ لکھتے رہیں گے لیکن قابل مبارک ہیں وہ لفظ جو دل سے نکلیں اور دل تک پہنچیں۔ جو ماضی کو ساتھ لائیں تو حال میں بھی جگمگائیں اور مستقبل بھی ان کی روشنی سے روشن ہو۔بہت مبارک نصرت نسیم!