پاکستان کی دو سر کردہ سیاسی پارٹیوں کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے کھلی دھمکی کے بعد پاکستان کی قیادت نے دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کاروائی کرنے کا عزم کیا ہے۔ حکومت نے عسکریت پسندوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے والے جنگجوؤں کے لیے مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کو ، خاص طور پر وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان کو ٹی ٹی پی کی طرف سے دی گئی دھمکی کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں سیاست دانوں نے اس عفریت کے سامنے کھڑے ہونے کی بہت بڑی قیمت چکائی ہے۔بے نظیر بھٹو، مولانا فضل الرحمٰن ، مولانا عبد الغفور حیدری اور اے این پی کی قیادت پرہونے والے حملے اور ان حملوں میں شہید ہونے والے سیاست دان ، علما ئے کرام، سیاسی کارکنان اس کا واضح ثبوت ہیں۔ ضروری ہے کہ سیاست دان اپنی سیکورٹی کو بہتر کریں اور اپنے تحفظ کو خود یقینی بنائیں۔
ٹی ٹی پی کا دعویٰ ہے کہ پاکستان ان کے خلاف ’’امریکہ کو خوش کرنے کے لیے‘‘ یہ لڑائی لڑ رہا ہے۔ امریکہ نے اگرچہ پاکستان کو اس جنگ میں معاونت کرنے کی پیش کش کی ہے مگر یہ جنگ پاکستان کی جنگ ہے۔ ایسے کسی گروہ کو پنپنے کی کیسے اجازت دی جاسکتی ہے جو پاکستانی ریاست کے بنیادی خد وخال تک کو بندوق کے ذریعے تبدیل کرنے پر امادہ ہے۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے گذشتہ روز ایک اہم پیش رفت سے آگاہ کیا کہ انسداد دہشت گردی کے لیے ایک نئے وفاقی ادارے کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، جو انسداد دہشت گردی کے صوبائی محکموں کے ساتھ ہم آہنگی کی فضا قائم کرکے دہشت گردانہ کارروائیوں کو روکنے کی حکمت عملی مرتب کرے گا۔ یہ اقدام بہت ضروری تھا کیونکہ دہشت گرد ملک بھر میں موجود اپنے اہداف پر حملہ کرنے کی صلاحیت سے لیس ہیں۔ جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ عدم تعاون کی صورت حال اور اندرونی کھینچا تانی کے باعث ناکام ہوجاتے ہیں۔ ایک ایسا ادارہ جو مشترکہ کوارڈینیشن کے ذریعے سول، ملٹری اور انٹیلی جنس تمام اداروں کے درمیان مربوط تعلق قائم کرے، تبھی عسکریت پسندی کے خلاف جنگ جیتی جاسکتی ہے۔
جہاں تک عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی بات ہے، جیسا کہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے بھی کہا ہے، ریاست کو واضح طور پر یہ پالیسی اپنانی چاہیے کہ مذاکرات کی بنیادی شرط ہتھیار ڈالنا اور پاکستان کے آئین کا احترام کرنا ہے۔ جو جو گروہ ہتھیار ڈالنے اور آئین پاکستان کا احترام اور اسے من و عن تسلیم کرنے پر امادہ ہوں، ان کے ساتھ بہرصورت گفتگو کرکے انہیں اس دلدل سے نکلنے اور پر امن شہری بن کررہنے کا مکمل حق دیا جانا چاہیے۔