سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف طویل عرصے علیل رہنے کے بعد 79 برس کی عمر میں دبئی میں انتقال کر گئے۔
سابق صدر کے اہل خانہ نے بتایا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کا آج علی الصبح دبئی کے اسپتال میں انتقال ہوا ہے۔
ذرائع کے مطابق جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف طویل عرصے سے دبئی کے امریکن اسپتال میں زیرِ علاج تھے۔جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سے اختلاف اور اتفاق رکھنے والوں میں سے اکثر نے ان کے انتقال پر اظہار افسوس اور دعائے مغفرت کی ہے۔
سامنے آنے والے بعض تعزیتی بیانات بڑی دلچسپی کے حامل ہیں۔
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر لکھتے ہیں:
انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ تعالٰی ہم سب سمیت سارے گنہگاروں کی مغفرت فرمائے اور دنیا میں ہونے والے لعن طعن اور ملنے والی سزاؤں کو آخرت کا کفارہ بنا دے۔ آمین
شفا تعمیر ملت یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے استاذ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ:
کسی مالی ذمہ داری کے ادا نہ کرنے کی شناعت واضح کرنے کےلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میت کا جنازہ خود نہیں پڑھا جو وہ مالی ذمہ داری ادا کیے بغیر فوت ہوا، اگرچہ دوسروں کو بھی جنازہ پڑھنے سے نہیں روکا۔
اس لیے جن لوگوں کی اقتدا کی جاتی ہے، ان کےلیے جنرل مشرف جیسے بد ترین ظالم کی موت پر خاموشی اختیار کرنا زیادہ بہتر آپشن ہے۔
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ قانون کے سربراہ ڈاکٹر عزیز الرحمٰن لکھتے ہیں:
جانے والے کی مغفرت کے لئے ہم دعاگو ہیں۔ اللہ بہترین عدل اور انصاف کرنے والا ہے۔ پرویز مشرف صاحب کے متعدد اقدامات کے خلاف ان کی زندگی میں ہم نے بھرپور گواہی دی۔ آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرنے کے ساتھ ساتھ اصل نقصان انہوں سماج کی سطح پر پہنچایا کہ معاشرہ ایسی تقسیم اور کنفیوژن کا شکار ہوا جس کا مظاہرہ خود مشرف صاحب کے حامیوں کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ ایک طرف وہ الٹرا لبرل طبقے کے ہیرو تھے اور دوسری طرف وہ لال قلعہ پر پرچم لہرانے کے خواہشمند متوالوں کی آنکھ کا تارا بھی! یہی تقسیم آج ہمارے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے۔ عدلیہ کی تباہی اور ماورائے قانون اغوا و تشدد کی منظم کاروائیاں مشرف دور کی یادگار ہیں۔
مگر وہ محض برائیوں کا مجموعہ نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں بعض اچھے کام کرنے کی کوشش بھی کی۔ پاکستان میں اعلی تعلیم کے دروازے معاشرے کے کمزور طبقات کے لئے کھولنے، بیرون ملک پاکستانی طلباء کے لیے اسکالرشپس، مقامی حکومتوں کے نظام کی ابتدائی کوششیں اور کسی حد تک بیوروکریسی کے شکنجے کو لگام ڈالنے جیسے کئی اقدامات مشرف دور میں پروان چڑھے مگر شومی قسمت کہ ان میں سے کسی بھی کام کو پائیدار بنیادوں پر استوار نہیں کیا جاسکا۔
جو آج تخت نشین ہیں ان کے لئے مشرف صاحب کی زندگی اور موت دونوں میں بہت سارا سبق پنہاں ہے۔ کوئی ہے جو تدبر کرے؟
معروف کالم نگار و مصنف آصف محمود نے لکھا کہ:
پرویزمشرف کے انتقال کی خبر سنی تو یوں محسوس ہوا حسیات میں عبرت کے منظر آ کر بیٹھ گئے ہیں۔ ان پر عروج آیا تو ایسے آیا کہ کوئی زوال کبھی آنا ہی نہیں اور ان پر زوال برسا تو ایسے برسا جیسے عروج کبھی تھا ہی نہیں۔
ہر دور میں یہ آواز آتی ہے: لمن الملک الیوم (آج بادشاہی کس کی ہے)
ہر عہد جواب دیتا ہے: للہ الواحد القھار (اللہ کی، جو سب پر غالب ہے)۔
فیس بک پر شریف اللہ نامی ایک صاحب نے لکھا :
میری رب کریم سے فریاد ہے کہ پرویز مشرف کے حق میں وار ان ٹیرر کے نام پر اسی ہزار مرنے والے اور ماورائے آئین ہزاروں لاپتہ پاکستانیوں کے پیاروں کی ہر دعا اور بد رعا قبول فرما۔
ہمارے نظام انصاف میں آئین شکنوں اور لاقانون کو پٹہ ڈالنے کی ہمت ہوتی تو پاکستانی اللہ سے فریاد صرف اپنے لئے کررہے ہوتے۔
راجہ شاہد حسین نے لکھا :
سابق صدر و چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کی وفات کا سن کر دل انتہائی افسردہ ہے زندگی کے دس سال کا سیاست کا ابتدائی حصہ انکے ساتھ گزرا اور بہت کچھ ان سے سیکھا ایک عظیم لیڈر بڑی سوچ والاانسان محب وطن بہادر جرنل اور ہمیشہ پاکستان کو بہادری کے ساتھ ڈیفنڈ کرتے تھے سب سے پہلے پاکستان نعرے اور نظریے کے خالق تھے۔
ادارہ فکر جدید لاہور کے سربراہ صاحبزادہ امانت رسول نے جنرل پرویز مشرف کے لیے دعا کرنے کی اپیل کرتے ہوئے لکھا کہ:
اناللہ واناالیہ راجعون
یہ وقت ان کے لئے نامناسب الفاظ بولنے کا نہیں۔۔دعائے مغفرت کا ہے۔
اللہ تعالی ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور رحمت کا معاملہ فرمائے۔۔۔آمین
یہ وقت ہم سب پہ آنا ہے۔۔ہم سب اس وقت دعاوں کے محتاج ہوں گے۔۔