اسلام آباد کے وکلاء ضلعی عدالتوں کی نئی تعمیر شدہ عمارت کی تصاویر شئیر کر رہے ہیں جس سے اس عمارت کے ڈیزائن اور کنسٹرکشن کے کام کے ناقص ہونے کا تاثر بالکل واضح طور پر ابھر رہا ہے۔ ساتھ ہی اسلام آباد ہی سے خبر آ رہی ہے کہ گولڑہ کے علاقے میں زیرتعمیر انڈرپاس کے ساتھ ایک دیوار گرنے سے کئی جانیں ضائع ہو گئی ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف نے راول ڈیم چوک پر جس فلائی اوور کا افتتاح کیا ہےاس کی سڑکیں دو اطراف سے بیٹھ گئی ہیں۔ بہارہ کہو بائی پاس پر دو بار حادثات ہو چکے ہیں اور ایک حادثہ میں مزدوروں کا جانی نقصان بھی ہوا۔
ان تعمیراتی کاموں کے ٹھیکے مکمل یا جزوی طور پر ایف ڈبلیو او یا این ایل سی کے پاس ہیں۔ یہ دونوں ادارے پروکیورمنٹ کے قانون میں کی گئی ایک ترمیم کے بعد کسی کھلے مسابقتی عمل کے بغیر ہی حکومتی ٹھیکے لینے کے حق دار قرار پائے ہیں۔ اس ترمیم کے نتیجے میں اسلام آباد میں زیرتعمیر اکثر بڑے کنٹریکٹ انہی اداروں کے پاس ہیں۔ ان اداروں کو ترجیحی بنیادوں پر کنٹریکٹ دینے کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان کا کام مستعدی سے بروقت مکمل ہوتا ہے جب کہ سویلین کمپنیاں کرپشن اور تاخیر سے پراجیکٹس کو برباد کر دیتی ہیں۔ مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ جزوی طور پر یہ بات درست بھی ہے مگر اسلام آباد کے حالیہ تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب کسی ادارے کو شفاف مسابقتی عمل سے مستثنٰی قرار دیا جائے تو اس کے کام میں کئی طرح کی خرابیاں شامل ہو جاتی ہیں۔ ایف ڈبلیو او اور این ایل سی وسیع تجربے اور انفراسٹرکچر کے حامل عسکری ادارے ہیں اور ان کے کام ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس استعداد کے باوجود جب ان اداروں پر ٹھیکوں کی برسات ہونا شروع ہو تو ان کے کام کی کوالٹی متاثر ہوتی ہے۔
اسلام آباد کچہری کی عمارت کا ڈیزائن اور کنسٹرکشن اس کی واضح مثال ہے۔ اسی طرح کنسٹرکشن کے کام میں سیفٹی سب سے اہم پہلو ہے۔ بار بار دیکھا گیا ہے کہ یہ ادارے سیفٹی کے بارے میں سویلین کنٹریکٹرز کی طرح لاپرواہی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں جو سیاسی ماحول بن گیا ہے اس میں ان اداروں کے کام پر تنقید کو مشکل بنا دیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعمیراتی کام کرنے والے اداروں کے کام پر تنقید کو معمول کے فیڈبیک کے طور پر لیا جائے اور اس کی روشنی میں کوالٹی اور سیفٹی کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے جائیں۔
باقی رہا یہ معاملہ کہ مسابقتی عمل کے بغیر حکومتی ٹھیکے کس طرح دیے جا رہے ہیں اور قانون میں کی گئی ترمیم کی کیا حیثیت ہے’ اس سوال کا سامنا عدلیہ کو ایک دن کرنا ہی پڑے گا۔ آخر کب تک وہ اپنے سامنے اٹھائے گئے اس سوال سے نظریں چرائےگی۔؟