ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے بدھ کے روز ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق 2023ء میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 0.3 فیصد رہی جب کہ آئندہ برس پاکستان کی معیشت ممکنہ طور پر 1.9فیصد کی شرح سے ترقی کر سکے گی۔ مگر …اور اس مگر میں چھپے مگرمچھ پر خاص توجہ کی درخواست ہے… شرط یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام ہو، منڈی پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو، موسمی حالات سازگار رہیں اور اشرافیہ کو ملنے والی 17.4ارب ڈالر کی ترقیاتی اور غیر ترقیاتی مراعات پر نظرثانی کی جائے۔ معیشت اور سیاسی استحکام میں تعلق بیان کرنے سے قبل مناسب ہے کہ پاکستان کے قرب و جوار میں واقع ممالک کی معاشی صورت حال پر طائرانہ نظر ڈال لی جائے تاکہ وطن عزیز کے ساتھ ’پروجیکٹ عمران‘ کے نام پر کیےگئے قومی جرم کی تباہی واضح ہو سکے۔ رواں برس میں بھارت کی معاشی شرح نمو 6.4 فیصد اور بنگلا دیش کی معاشی ترقی 5.5فیصد رہی۔ واضح رہے کہ جولائی 2018ء میں جب اہل پاکستان کے زخموں پر ’وتعز من تشا و تذل من تشا‘ کی آیت مبارکہ کی آڑ میں نمک پاشی کی جا رہی تھی، پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 5.8 فیصد تھی۔
آج ایشیا کے 46ممالک میں پاکستان کی معیشت 43 ویں نمبر پر ہے۔ بھارت میں مہنگائی کی شرح 7.8فیصد اور بنگلادیش میں 9.9فیصد ہے جب کہ پاکستان میں مہنگائی 27فیصد کے ہندسے کو چھو رہی ہے۔ پاکستان میں مالیاتی خسارہ 7.5فیصد اور جاری اخراجات کا خسارہ 1.5فیصد ہے۔ بھارت میں زرمبادلہ کے ذخائر 600ارب ڈالر اور بنگلہ دیش میں 23ارب ڈالر ہیں جب کہ پاکستان میں زرمبادلہ کے کل ذخائر 8.7ارب ڈالر ہیں۔ بھارت میں ڈالر کی شرح تبادلہ 83بھارتی روپے اور بنگلہ دیش میں 109ٹکہ کے برابر ہے جب کہ پاکستان میں انٹربینک میں ڈالر کی قیمت 297روپے ہے۔ اس معاشی تصویر کو چند ہنگامی اقدامات یا قلیل مدتی جوڑ توڑ کے ذریعے بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔ معاشی ترقی اور شفاف سیاسی نظام کے ارتباط اور تسلسل میں ناگزیر تعلق ہے۔
اس ضمن میں ہمارے کچھ ارباب وطن ہمیں سمجھایا کرتے ہیں کہ معاشی ترقی کے لیے جمہوریت لازم نہیں ۔ اس کی مثال میں سنگاپور، چین اور سعودی عرب کی مثالیں دی جاتی ہیں۔سنگاپور کی کل 55لاکھ آبادی پاکستان کے ایک درمیانے درجے کے شہر سے زیادہ نہیں۔ سعودی عرب بنیادی طور پر کرائے کی معیشت ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع کے امکانات نے سعودی معیشت اور خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔ چینی معیشت بحران کا شکار ہے اور گزشتہ ہفتوں میں وہاں کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے بارے میں کچھ خبر نہیں۔ اگرچہ کسی ملک کی معاشی قدر پیمائی ہنگامی واقعات کی مدد سے نہیں کی جاتی تاہم چین کے موجودہ قائد ژی جن پنگ نے 2013ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بدعنوانی کے خلاف بے رحم مہم چلا رکھی ہے جس میں ہزاروں نہیں، لاکھوں افراد ملوث پائے گئے ہیں۔ فیصلہ سازی کی اعلیٰ سطحوں پر اقتدار کی کشمکش سے قطع نظر کسی ملک میں اس قدر وسیع پیمانے پر بدعنوانی کا انکشاف بتاتا ہے کہ نظام حکومت میں اختیار اور جواب دہی کا شفاف نظام مفقود ہے۔ آپ کے نیازمند نے برسوں اس موقف کی پاداش میں حرف دشنام سنا ہے کہ بھارت میں 1991ءسے سیاست اور معیشت کے دھاروں میں ایسی مطابقت پائی جاتی ہے جو تحکمانہ نظام حکومت میں ممکن نہیں۔ چناں چہ طویل مدتی تناظر میں بھارت کے معاشی امکانات زیادہ روشن ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ریاست بالخصوص کوئی طاقت ور عالمی قوت اخلاقی اصولوں کی پابند نہیں ہوا کرتی۔ امریکہ ہو یا روس، بھارت ہو یا چین، عالمی بالادستی کے لیےکمزور اور زیر دست ملکوں سے کھلواڑ کیا کرتے ہیں۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بدھ کے روز نیویارک میں خارجہ امور کی کونسل سے بات کرتے ہوئے پاکستان کو چین کا اسرائیل قرار دیا ہے۔ محترم نگران وزیراعظم کی آفاقی سیاسی بصیرت کا احاطہ ہم ایسے فانی انسان نہیں کر سکتے۔ تاہم انہیں یاد دلانے میں حرج نہیں کہ ان کا جملہ 2010 ء میں ایک چینی سفارت کار کے قو ل کی بازگشت تھا۔ کوئی باوقار قوم کسی بڑی طاقت کا دریوزہ گر ہونے پر فخر نہیں کر سکتی۔ اٹھارہویں صدی کے درویش منش اردو شاعر نظیر اکبر آبادی یہ نکتہ سمجھتے تھے۔
؎. نحس اس کو کہتے ہیں اہل کرم…سمجھتے ہیں دریوزہ گر سے بھی کم۔
یہ بھی یاد رہے کہ طاقت ور قومیں اپنے مفاد میں آنکھیں پھیرنے میں وقت نہیں لیا کرتیں۔چین اور روس نے مشرق اور مغرب میں کچھ چھوٹی بڑی ریاستوں کو ساتھ ملا کر عالمی صف بندی میں متوازی راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے۔ انقلاب فرانس کے بعد سے عالمی تاریخ بتاتی ہے کہ علمی جستجو، سیاسی انصاف اور معاشی ترقی کے بڑے دھارے سے انحراف کی کوئی کوشش پائیدار نہیں ہوا کرتی۔ نپولین دنیا فتح کرنے نکلا تھا۔ ہٹلر فرانس کے ساحلوں سے ماسکو کے میٹرو اسٹیشن تک جا پہنچا تھا۔جاپان نے منچوریا سمیت پورے مشرق بعید پر قبضہ کر لیا تھا۔ سوویت یونین دوسری عالمی جنگ کے بعد پورے مشرقی یورپ اور وسط ایشیا پر قابض تھا۔ تاریخ کی منطق بے رحم ہوتی ہے۔
تاریخ کے اس پھیلے ہوئے منظر سے پاکستان کی طرف لوٹتے ہیں۔ ہماری آبادی پچیس کروڑ ہے اور اس کا بڑا حصہ نوجوان ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ کا خمیر جمہوریت سے اٹھا ہے۔ ہمارے بانی رہنما جدید سیاسی اقدار کے علمبردار تھے۔ اس ملک کے عوام نے یکے بعد دیگرے آمریت کے مختلف تجربات کو پرامن سیاسی جدوجہد سے شکست دی ہے۔ ہمیں کسی مسیحا کے دست ِاعجاز کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اقوام عالم سے تعاون اور تجارت کے راستوں پر چلتے ہوئے ایک ذمہ دار قوم کی طرح اپنے لوگوں سے انصاف کرناہے۔ ہماری معیشت کے موجودہ اشاریے تاب ناک نہیں لیکن ہم دستور میں طے کردہ پارلیمانی جمہوریت کے راستے پر چلتے ہوئے ترقی کی منزل پا سکتے ہیں۔ بشرطیکہ ہم یہ سمجھ لیں کہ جمہور کی حکمرانی اور سیاسی استحکام کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں۔