زوران کسووک کا الجزیرہ پر شائع شدہ انگریزی مضمون، جسے سلمان مسعود نے افکار کے لیے ترجمہ کیا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات پر سب کی ایک مضبوط رائے ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے کبھی سیاح کی حیثیت سے علاقے کا دورہ کیا ہے نہ ہی کم از کم پچھلے 100 سالوں کو محیط پیچیدہ عرب اسرائیل تعلقات کے اتار چڑھاؤ کے بارے میں پڑھا ہے، اور نہ ہی وہ جدید قومی ریاستوں کی تخلیق اور بلاد الشرق کی قومیتی حرکیات سے واقف ہیں، وہ بھی اس معاملے پر اپنی ایک رائے رکھتے ہیں۔ ایک سوال جو "انٹرنیٹ ماہرین” نے 7 اکتوبر کے بعد اکثر پوچھا ہے، وہ یہ ہے کہ "عرب ریاستیں (یا دیگر ممالک) اپنی سرحدیں کیوں نہیں کھولتے اور غزہ کی پٹی کی آبادی کو جانے کیوں نہیں دیتے؟” انہوں نے بخوبی مشورہ دیا ہے کہ اگر سرحدیں کھول دی جائیں تو عام شہری وہاں سے نکل سکتے ہیں۔ وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حماس اور دیگر مسلح فلسطینی دھڑوں کے جنگجوؤں کو پیچھے چھوڑ دیا جائے، تاکہ اسرائیل انہیں عسکری طور پر شکست دے کر اس خطرے کو دور کر سکے اور عام شہری اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکیں۔ یہ مطالبہ حقیقت سے دوری اور بے خبری کی بنیاد پر قائم ایک خواہش کے سوا کچھ نہیں۔
عام فلسطینیوں کی اکثریت بہت شدت سے محسوس کرتی ہے کہ ان تمام ہولناکیوں کے باوجود انہیں غزہ کی پٹی میں ہی رہنا چاہیے۔ دوسری طرف پڑوسی ریاستوں کا خیال ہے کہ وہ مزید 20 لاکھ پناہ گزینوں کو اپنے ہاں بسانے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ باہر بیٹھے ناتجربہ کار لوگوں کےلیے یہ غیر منطقی بات ہوسکتی ہے کہ انتہائی خطرے میں بھی لوگ یہیں رہنا اور تکلیف اٹھانا چاہتے ہیں! اس کے ساتھ ساتھ وہ عرب ریاستوں کے اخلاص پر سوال بھی اٹھا سکتے ہیں کہ جو اپنے بھائیوں کی حمایت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن انہیں پناہ نہیں دیتے۔
دراصل دونوں فریقوں کا موقف خوف ناک اجتماعی یادوں کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ 75 سالوں میں فلسطینیوں کی نسلیں اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکی ہیں اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے ان کی واپسی کے حق کو تسلیم کرنے کی متعدد قراردادوں کے باوجود وہ اور ان کی نسلیں آج تک پناہ گزین ہیں۔ یوں کہیے کہ ابدی مہاجرت ان کا مقدر بن چکی ہے۔
کئی اہم لڑائیوں کے نتیجے میں ہونے والی آبادیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فلسطینیوں کو ان کی آبائی زمینوں سے بارہا بے دخل ہونا پڑا۔ پہلاحادثہ جو سب سے زیادہ غیر متوقع تھا اور سب سے گہرے اجتماعی دکھ کا سبب بنا، اسے آج تک فلسطینی نقبہ” تباہی” کے نام سے پکارتے ہیں۔ 1948 میں تقریباً 10 لاکھ لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا، 85 فیصد سے زیادہ فلسطینی اس ملک میں مقیم تھے جو اب اسرائیل بن چکا ہے۔ پڑوسی عرب ریاستوں نے متحد ہو کر اسے عسکری طور پر تباہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہیں۔ آج کے لبنان، شام اور اردن نے اپنے بے گھر رشتہ داروں کو زیادہ تر اپنے ہاں پناہ دی۔ پناہ گزینوں نے قضیے کے سیاسی تصفیے کے بعد اپنے گھروں کو واپس جانے کی امید کرتے ہوئے درپیش مشکلات اور غیر یقینی صورتِ حال کو جی جان سے برداشت کیا۔
لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ بین الاقوامی برادری نے بات کی؛ وعدہ کیا، لیکن کبھی بھی وعدے پر پورا نہ اتر سکی۔ مشرق و مغرب کی طاقت ور ریاستوں نے "منصفانہ اور دیرپا حل” پر اصرار تو کیا لیکن اس پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے۔ نئی جنگیں پھوٹ پڑیں ، جس سے نئے مہاجرین پیدا ہوئے۔ لیکن فلسطینیوں نے واپسی کے خواب کو مرنے نہیں دیا۔ کچھ کے پاس اب تک بھی اپنے آبائی گھروں کی چابیاں موجود ہیں۔
دوسری عرب اسرائیل جنگ 1956 میں مصر کی نہر سویز پر لڑی گئی۔ اس نے زیادہ فلسطینیوں کو تو بے گھر نہیں کیا، لیکن اس کی وجہ سے نسلوں پرانی یہودی اور غیر عرب قومیتیں عرب ریاستوں سے بے دخل ہو گئیں؛ بہت سے لوگوں کو زبردستی نکال دیا گیا، کچھ اپنے طور پر چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے۔ اگلی تباہی 1967 کی جنگ کی شکل میں نمودار ہوئی تھی، جب اردن نے مغربی کنارے اور یروشلم، اور شام نے گولان کی پہاڑیوں کو گنوا دیا۔ اس کے نتیجے میں تین لاکھ سے زیادہ فلسطینی مغربی کنارے سے خصوصاً اردن فرار ہو گئے جبکہ ایک لاکھ کے قریب گولان سے بے دخل ہوئے۔1948 کے نقبہ متاثرین کی طرح، 1967 کے مہاجرین نے کسمپرسی کی زندگی بسر کی۔ وقت کے ساتھ اگرچہ کینوس کے خیموں کی جگہ پختہ عمارتوں نے لے لی۔ تاہم اسرائیل کی طرف سے بے دخل کیے گئے فلسطینیوں کے حالات سخت اور کٹھن ہی رہے۔
فلسطینیوں کا ان ممالک میں انضمام مشکل ثابت ہوا۔ یہاں تک کہ ان کی دوسری یا تیسری نسل بھی اپنے میزبانوں کو”غیر ملکی” کے طور پر دیکھتی ہے، جبکہ بدلے میں انہیں بھی ایسے”غیر مقامی” عربوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو بہت زیادہ مختلف ہیں۔ یہ اختلافات کس حد تک بڑھے، اس کی جھلک 1970-1971 میں اردن میں فلسطینی حریت پسندوں اور اردنی افواج کے درمیان خونریز لڑائی میں ہمیں ملتی ہے۔ اس لڑائی میں فلسطینی حریت پسندوں کی قیادت فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے سربراہ اور الفتح کے بانی یاسر عرفات کر رہے تھے۔
فدائین مقبوضہ مغربی کنارے سے اردن گئے، جہاں انہوں نے اسرائیل کے خلاف کارروائیاں منظم کیں اور نتیجتاً اسرائیل نے اردن کی سرزمین پر جوابی حملے کرنا شروع کر دیے۔ اس وقت، مہاجرین پہلے ہی اردن کی آبادی کا نصف تھے۔ 1948 میں آنے والوں کو مکمل شہریت حاصل تھی، جبکہ بعد میں آنے والوں کے پاس صرف پناہ گزین کا درجہ تھا۔ اس قدر فلسطینی آبادیاتی تناسب کے باعث ہاشمی شاہی خاندان کو خدشہ ہونے لگا کہ فلسطینی تنظیم حریت اردن میں اس قدر مضبوط ہو جائے گی کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر سکتی ہے۔ یہ خدشہ ایک بھیانک بین العرب جنگ کی شکل میں اپنی انتہا کو پہنچا جس میں 4,000 افراد لقمہِ اجل بن گئے۔ فلسطینی تنظیم حریت (پی ایل او) کو لبنان نے اپنے یہاں پناہ دی تو وہاں سے بھی وہ اسرائیل پر حملے کرنا شروع ہو گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بالآخر ان جنگجوؤں اور لبنانی افواج کی باہمی کشمکش نے تقریباً پندرہ برسوں پر محیط خونریز خانہ جنگی کو جنم دیا جو 1975 سے 1990 تک جاری رہی۔
ماضی کے تلخ تجربات پیشِ نظر رکھے جائیں تویہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ خطے کی عرب ریاستیں نئے پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے حوالے سے محتاط کیوں ہیں۔ کیونکہ وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ نئے آنے والے فلسطینی یقینی طور پر ان کے ہاں مستقل رہائش پذیر رہیں گے۔ غیر عرب دنیا بھی بمباری، قحط اور بیماری سے بچ جانے والے ان بدبختوں کو رضاکارانہ رہائش دینے کو تیار نہیں ہے۔ بیشتر عرب یہ سوال کرتے ہیں کہ امریکا، کینیڈا، روس، آسٹریلیا اور ارجنٹائین جیسے بڑے ممالک فلسطینیوں کو پناہ گزینی کی پیشکش کیوں نہیں کرتے؟ تمام وعدوں، حتیٰ کہ 1993 کے اوسلو معاہدے کے باوجود، جس میں مبینہ طور پر فریقین کو مطمئن کرنے کا حل پیش کیا گیا تھا، اسرائیل نے پناہ گزینوں کی واپسی اور آبادکاری کو عملاً ناممکن بنا دیا ہے۔ لبنان، شام یا اردن سے کوئی بھی فلسطینی پناہ گزین واپس اپنے گھر نہیں گیا، انہیں لگتا ہے کہ دنیا انہیں بھول گئی ہے۔ بلکہ ان کا احساس ہے کہ ان کی تعداد کم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ فلسطینی ذرائع کا اندازہ ہے کہ 1948 میں بے دخل کیے جانے والوں سے لے کر موجودہ چوتھی نسل تک 60 لاکھ افراد ایسے پناہ گزین ہیں جو زندہ رہنے میں کامیاب رہے ہیں۔
غزہ کے باشندے کسی حال میں بھی اپنے وطن کو نہیں چھوڑنا چاہتے۔ انہیں خدشہ ہے کہ اسرائیلی جارحیت ان کی اس خواہش کا لحاظ کبھی نہیں کرے گی اور انہیں طاقت کے ذریعے مصر کی طرف دھکیل دے گی۔ گنجان آباد، عسرت و تنگ دستی کا شکار اور بے رحم غزہ کی پٹی میں وہ برسوں سے اپنا وجود برقرار رکھتے چلے آرہے ہیں اور اس دوران تمام تر وحشت و خوف کے باوجود اپنے آبائی وطن کو چھوڑنا وہ آخری چیز ہے جو وہ چاہیں گے۔ یہ وحشت و خوف دراصل عرب ریاستوں اور اسرائیل کے مابین جغرافیائی اور سیاسی جوڑتوڑ کے سفاکانہ عمل سے جنم لیتا ہے۔
اس تمام تر صورتِ حال نے انہیں بظاہر کسی کم تر چیز کے کھو جانے کے حوالے سے بھی خوف زدہ کر رکھا ہے۔
انہوں نے آبائی وطن کی طرف واپسی کے حق پر اصرار کرنے والے متعدد اقدامات اور قراردادیں دیکھی ہیں، جن کا کوئی نتیجہ کبھی سامنے نہیں آیا۔ اب غزہ کی پٹی کے بد نصیب فلسطینیوں کو یہ خوف ہے کہ وہ اس بے رحم سیاسی لین دین کے سفاکانہ کھیل کا ایندھن بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر میسر ذرائع کی مدد سے وہ اس کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔