(قسط چہارم)
سلسلہ ہٰذا کا اولین مضمون 5 اکتوبر 2023ء کو روزنامہ اسلام میں شائع ہوا، اگرچہ مابعد اشاعت ملکی سیاست میں کئی اہم پیش رفت ہو چکی ہیں، تاہم فروری 2024ء میں ہونے والے عام انتخابات کے تناظر میں تاریخ کے یہ اوراق انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، قاریین اور سیاسیات کے طلبہ کی دل چسپی کے لیے یہ مضمون سلسلہ وار افکار پر شائع کیا جا رہا ہے
ضیاء صاحب کے امیدوار خواجہ صفدر کو شکست دے کر اسپیکر قومی اسمبلی بننے والے فخر امام کو بالآخر تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اور ان کو قومی اسمبلی میں محض 72 ووٹ ملے۔ قبل ازیں قومی اسمبلی نے طویل بحث و مباحثے کے بعد آٹھویں آئینی ترمیم کا بل منظور کر لیا تھا۔ اس ترمیم کے ذریعے جہاں مارشل لا کے تمام اقدامات کو آئینی تحفظ مل گیا، وہیں صدر مملکت کو یہ اختیار بھی مل گیا کہ وہ جب مناسب سمجھیں، قومی اسمبلی توڑ سکتے ہیں۔
بے نظیر صاحبہ نے مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ کردیا۔ وہ جونیجو اور ضیاء، دونوں کو اقتدار سے محروم کرنے کی کوشش میں تھیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے تحریک چلانے کا اعلان کر دیا، دوسری طرف حکومت نے اس تحریک سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ بے نظیر بھٹو اپنے پرانے اتحادیوں اور اپنی ہی پارٹی کے سینئر راہنماؤں کو بھی نظر انداز کرنے کی پالیسی پر گامزن ہو گئیں۔ انہوں نے کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں بڑے جلسے کی کوشش کی لیکن جگہ جگہ پولیس اور کارکنوں میں تصادم ہوا۔ بے نظیر بھٹو نے کراچی میں جلوس کی قیادت کی اور ضیاء کے اقتدار سے ہٹنے تک تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا لیکن ایک بار پھر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گرفتاری سے دوسرے شہروں بالخصوص اندرون سندھ اشتعال پھیل گیا مگر ہفتے عشرے میں اس تحریک نے دم توڑ دیا اور حالات معمول پر آ گئے۔
غلام مصطفی جتوئی جو بے نظیر بھٹو کے ”انکلز“ کی قیادت کر رہے تھے، انہیں بھی بے نظیر بھٹو کا بری طرح نظر انداز کرنا ناراض کر گیا اور انہوں نے نیشنل پیپلزپارٹی کے نام سے نئی پارٹی کی بنیاد رکھ دی۔ اس پارٹی کے پہلے اجلاس میں ڈیڑھ ہزار سے زائد کارکن شریک ہوئے، نمایاں راہنماؤں میں حنیف رامے، حامد رضا گیلانی، غوث بخش رئیسانی، نصراللہ خٹک اور نرگس نعیم وغیرہ شامل تھے۔
جونیجو صاحب نے بدستور اپنے آپ کو اصل سربراہِ حکومت ظاہر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے جرنیلوں اور بیوروکریسی کو بڑی گاڑیوں سے اتار کر چھوٹی گاڑیوں پر بیٹھنے کا حکم بھی جاری کیا اور تمام جماعتوں کو سیاسی سرگرمیوں کی بھی اجازت دی۔ افغان مسئلے پر صدر ضیاء اور وزیراعظم جونیجو میں اختلاف کی خبریں آنا شروع ہو گئیں۔ مجاہدین کے ہاتھوں سوویت یونین کا برا حال ہو گیا تو امریکا اور اس کی حامی قوتوں نے جارح سوویت فوجیوں کو افغانستان سے واپسی کی راہ دینے کے لیے مذاکرات کی باتیں شروع کر دیں اور جنیوا میں ان مذاکرات کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔ ضیاء صاحب سمجھتے تھے کہ افغان جہاد میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا ہے امریکا اور اس کے حاشیہ بردار اس کو نظر انداز کر کے افغانستان سے سوویت یونین کو واپسی کا راستہ دیتے وقت پاکستان کو وہ اہمیت نہیں دے رہے، جبکہ جونیجو صاحب سمجھ رہے تھے کہ امریکا کی خواہش کے مطابق افغان مسئلہ حل کرا کے وہ مضبوط اور خود مختار وزیراعظم ہو جائیں گے۔ صدر ضیاء پر دباؤ بڑھانے کے لیے انہوں نے اس مسئلے پر آل پارٹیز کانفرنس بلا ڈالی، اس کانفرنس میں 19 سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین شامل ہوئے، بے نظیر بھٹو کی فرمائش پر صدر ضیاء کو اس کانفرنس میں نہیں بلایا گیا۔ مولانا فضل الرحمن کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے جونیجو خود ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے اور انہوں نے مولانا مفتی محمود کی قبر پر فاتحہ خوانی بھی کی۔
کل جماعتی کانفرنس میں کوئی ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی عہدے دار شریک نہیں ہوا، بلکہ وزیراعظم جونیجو کی معاونت ان کے وزراء اسلم خٹک، چودھری شجاعت، قاضی عبدالمجید عابد، اقبال احمد خان یاسین وٹو اور ابراہیم بلوچ نے کی جبکہ شرکت کرنے والے قائدین میں بے نظیر بھٹو، نوابزادہ نصراللہ خان، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا فضل الرحمن، غلام مصطفی جتوئی، سردار غوث بخش بزنجو، مولانا سمیع الحق، خواجہ خیر الدین، ملک محمد قاسم، سردار عبدالرحیم مندوخیل، مولانا معین الدین لکھوی، ایئرمارشل (ر) اصغرخان، قاضی حسین احمد، لیاقت بلوچ، معراج محمد خان، فتح یاب علی خان، سردار شیر باز مزاری، فاضل موسوی، رسول بخش پلیجو اور علامہ ساجد میر شامل تھے۔
کانفرنس کا آغاز نورانی میاں نے تلاوتِ قرآن پاک سے کیا اور جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا سید حامد میاں کے لیے دعائے مغفرت کرائی۔ اس کل جماعتی کانفرنس میں وزیر مملکت برائے خارجہ زین نورانی نے قومی راہنماؤں کو افغان مسئلے کے متعلق تفصیل سے آگاہ کیا اور مجوزہ جنیوا سمجھوتے کے سلسلے میں بھی بریف کیا۔ بائیں بازو کی جماعتیں غیر مشروط طور پر جنیوا معاہدہ پر سمجھوتے کی حامی تھیں جبکہ دائیں بازو کی جماعتیں اس معاہدے کو افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام سے مشروط کرنے اور قابض روسی افواج کے مکمل اخراج اور مجاہدین کی اپنے گھروں کو مکمل واپسی کو بیک وقت عمل میں لانے کی حامی تھیں۔ اس دو روزہ کانفرنس کے بعد مشترکہ اعلامیہ کے مطابق شرکاء نے جنیوا سمجھوتے پر دستخط کے سلسلے میں حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔
اپریل 1988 ء کی 10 تاریخ کی صبح راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی، گولہ بارود پھٹنے اور دھماکوں کی آوازوں سے جڑواں شہر لرز اٹھے، میزائلوں کی بارش ہونے لگی، یہ سب اُس آگ کی وجہ سے ہوا جو فیض آباد کے نزدیک اوجڑی کیمپ میں بھڑک اٹھی تھی۔ اوجڑی کیمپ پاک فوج کے گولہ بارود کی بڑی ذخیرہ گاہ تھی۔ بعد کی اطلاع کے مطابق یہ آگ اس وقت بھڑکی جب گولہ بارود کے بکس ٹرکوں میں رکھے جا رہے تھے۔ اس سانحے میں سرکاری رپورٹ کے مطابق سو سے زائد افراد جاں بحق جبکہ تیرہ سو سے زائد زخمی ہوئے، مگر غیرسرکاری اندازوں کے مطابق مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ اس وقت کے وفاقی وزیر خاقان عباسی (جناب شاہد خاقان عباسی کے والد) بھی اس سانحے کی نذر ہوئے اور ان کا ایک بیٹا معذور ہوکر برس ہا برس بستر پر رہنے کے بعد فوت ہوا۔
وزیر اعظم جونیجو نے اس سانحے کی انکوائری کے لیے کمیٹی بنا دی، کمیٹی کے سربراہ اسلم خٹک تھے جبکہ کمیٹی میں وفاقی وزراء نسیم آہیر، قاضی عبدالمجید عابد، رانا نعیم محمود اور ابراہیم بلوچ شامل تھے۔ کمیٹی دو حصوں میں بٹ گئی۔ اسلم خٹک نے بطور چیئرمین رپورٹ لکھی اور سانحے کے ذمہ داران کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی تجویز کرنے سے احتراز کیا جبکہ رانا نعیم محمود نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے سانحے کے ذمہ داران کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرنے کی سفارش کی۔ میر ابراہیم بلوچ اور قاضی عبدالمجید عابد نے ان سے اتفاق کیا، یہ رپورٹ کبھی منظرعام پر آئی، نہ شائع ہوسکی۔ جب اس رپورٹ کے مندرجات ضیاء صاحب تک پہنچے تو انہوں نے اپنے فوجی رفقاء کی حمایت کا فیصلہ کیا۔
(جاری ہے)