قسط ششم
سلسلہ ہٰذا کا اولین مضمون 5 اکتوبر 2023ء کو روزنامہ اسلام میں شائع ہوا، اگرچہ مابعد اشاعت ملکی سیاست میں کئی اہم پیش رفت ہو چکی ہیں، تاہم فروری 2024ء میں ہونے والے عام انتخابات کے تناظر میں تاریخ کے یہ اوراق انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، قاریین اور سیاسیات کے طلبہ کی دل چسپی کے لیے یہ مضمون سلسلہ وار افکار پر شائع کیا جا رہا ہے۔
عام انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرانے کا فیصلہ سپریم کورٹ پہلے ہی دے چکی تھی، حکومت نے عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کرائی کہ 16 نومبر کو قومی اور 19 نومبر 1988ء کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرا دیے جائیں گے۔ حالانکہ ضیاء صاحب کہہ گئے تھے کہ میرے بس میں ہوا تو ایک نہیں پانچ مرتبہ بھی انتخابات کرانا پڑے تو غیرجماعتی ہی کراؤں گا۔ اب پاکستان کی سیاست میں عجیب افراتفری کا سماں تھا، تقریباً گیارہ برس تک بحالی جمہوریت کی تحریک چلانے والی ایم آر ڈی کی رکن جماعتیں تتر بتر ہو گئیں۔ وہ تمام جماعتیں اور شخصیات جو بوجوہ ضیاء صاحب کے حلقہ اثر میں تھیں، وہ بھی منتشر تھیں۔ بھٹو صاحب، جنہیں 1979ء میں جسمانی طور پر پاکستانی سیاست سے نکال دیا گیا تھا، گیارہ برس بعد ایک بار پھر سیاسی میدان میں ایک بڑی حقیقت کے طور پر موجود تھے جبکہ ان کے مخالفین میں سے کچھ تو ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر چلے گئے جہاں انہوں نے بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کے دیگر راہنماؤں کی عدم موجودگی میں پی پی کے کارکنوں کو متحرک، زیادہ صحیح لفظوں میں پیپلز پارٹی کو زندہ رکھا۔ اکثر بھٹو مخالف جماعتیں اور شخصیات ضیاء صاحب کے ساتھ مل گئیں۔ ایک وہ طبقہ بھی تھا جسے بھٹو صاحب سے کوئی مخاصمت یا بیر تو نہ تھا لیکن ان کی سیاسی و سماجی نشوونما ضیاء صاحب کی سرپرستی میں ہوئی تھی۔ یہ لوگ بلدیاتی سیاست یا ضیاء صاحب کی اپنی حکمت عملی کے تحت منظرعام پر لائے گئے تھے، ان سب کا بظاہر اب کوئی پُرسانِ حال نہ تھا۔
پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ میاں نوازشریف، جن کے خاندانی کاروبار کو بھٹو صاحب کے دور میں زبردست نقصان پہنچا تھا، انہیں 1982ء میں صوبائی وزیر اور 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد روایتی پنجابی سیاست دانوں پر فوقیت دے کر صوبائی وزیرِ اعلیٰ بنا دیا گیا تھا، وہ مذکورہ بالا تمام عناصر کی امیدوں کا مرکز و محور تو تھے ہی لیکن پیپلزپارٹی کی نقطہ عروج پر پہنچی ہوئی مقبولیت سے خائف بھی تھے۔ میاں صاحب اور ان کے رفقاء کسی بھی صورت اپنے بل بوتے پر انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ نہ تھے، وہ سمجھتے تھے کہ صورت حال جو بھی ہو وہ تنہا پیپلزپارٹی کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ تب جنرل ضیاء کے اصل وارث بروئے کار آئے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے اگلے دن اسلام آباد میں آئی جے آئی کا قیام عمل میں آ گیا۔
اس اتحاد میں غلام مصطفیٰ جتوئی کی نیشنل پیپلزپارٹی، مسلم لیگ فداء گروپ، جے یو آئی درخواستی گروپ، مرکزی جمعیت اہلحدیث لکھوی گروپ، پیر فضل حق کی جمعیت مشائخ، آقا مرتضیٰ پویا کی حزبِ جہاد، جمعیت علماے پاکستان کا نظامِ مصطفی گروپ اور فخر امام، عابدہ حسین، جاوید ہاشمی وغیرہ پر مشتمل آزاد پارلیمانی گروپ شامل تھا۔ دو تین دن بعد جماعتِ اسلامی بھی اس میں شامل ہوگئی۔ اتحاد کا صدر غلام مصطفی جتوئی اور سیکریٹری جنرل پروفیسر عبدالغفور احمد کو بنایا گیا۔ پاکستان عوامی اتحاد کے نام سے جونیجو صاحب کی پاکستان مسلم لیگ، ایئر مارشل (ر) اصغرخان کی تحریکِ استقلال اور مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علماے پاکستان بھی ایک پلیٹ فارم بنا چکے تھے۔ فیصلہ سازوں نے جونیجو صاحب کو بھی آئی جے آئی میں لانے کے لیے مسلم لیگ (فدا) اور مسلم لیگ (جونیجو) میں اتحاد کرا کے جونیجو صاحب کا اس کا صدر بنوا دیا۔ آئی جے آئی کے سربراہ تو غلام مصطفی جتوئی تھے، ان کو یہ منصب تین ماہ کے لیے ملا تھا کیونکہ ہر تین ماہ کے بعد آئی جے آئی کی صدارت شامل جماعتوں کے سربراہوں کو باری باری ملنا تھی۔ لیکن آئی جے آئی کے اصل روح رواں پنجاب کے نگران وزیرِ اعلیٰ نواز شریف تھے جنہیں انتخابات میں شرکت پر آمادہ کرنے کے لیے یہ اتحاد بنایا گیا تھا۔ ایک وقت میں نوازشریف صاحب کو ضیاء صاحب نے اپنی عمر بھی لگ جانے کی دعا دی تھی۔ انتخابی مہم میں نادیدہ قوتوں کی مکمل سرپرستی اس اتحاد کو حاصل تھی۔ بہت بعد میں عسکری دانشور لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ اتحاد انہوں نے بنوایا تھا اور اس میں شریک جماعتوں اور راہنماؤں میں رقوم بھی بانٹی گئی تھیں۔ اس حوالے سے ایئرمارشل (ر) اصغرخان عدالت میں بھی گئے تھے اور ہنوز یہ کیس عدالت ِعظمیٰ میں سماعت کا منتظر ہے۔
16 نومبر کو عام انتخابات منعقد تو جماعتی بنیادوں پر ہوئے لیکن امیدواروں میں جماعتی نظم وضبط کا شدید فقدان تھا ہر امیدوار اپنی ذاتی کامیابی کے لیے کوشاں تھا۔
نتائج آنا شروع ہوئے تو پتا چلا کہ غلام مصطفیٰ جتوئی، پیر صاحب پگارا، محمد خان جونیجو، سردار غوث بخش بزنجو، ایئرمارشل (ر) اصغر خان، جنرل (ر) فضل حق تین نشستوں پر، سید غوث علی شاہ، سردار ممتاز علی بھٹو اور الٰہی بخش سومرو جیسے بڑے بڑے برج پیپلزپارٹی نے اُلٹا کر رکھ دیے۔ پیپلزپارٹی قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی۔ آئی جے آئی دوسرے اور حیران کن طور پر مہاجر قومی موومنٹ تیسرے نمبر پر آئی۔ جمعیت علماے اسلام (ف) کو چوتھا نمبر ملا۔ نوابزادہ نصراللہ خان، خان عبدالولی خان، مولانا فضل الرحمن، مولانا عبدالستار خان نیازی اور غلام مصطفیٰ کھر بھی اسمبلی میں پہنچ گئے۔ جبکہ دو درجن سے زائد آزاد ارکان بھی منتخب ہوئے۔
19 نومبر کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہونا تھے۔ تین دن میں پنجاب کے اندر جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا کر آئی جے آئی نے اکثریت حاصل کرلی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کو واضح اکثریت مل گئی، سرحد اور بلوچستان میں ملا جلا رجحان رہا۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور اسلامی جمہوری اتحاد، دونوں کے پاس وفاقی حکومت بنانے کے لیے درکار نمبر پورے نہ تھے۔ یہ واضح تھا کہ جو پارٹی بھی حکومت بنائے گی اسے کسی اور پارٹی کو بھی ساتھ ملانا پڑے گا۔ آزاد امیدوار اور مہاجر قومی موومنٹ اب مرکزِ نگاہ تھے۔ آزاد امیدواروں کی بجائے ایم کیو ایم سے معاملہ کرنا اسی لیے آسان تھا کہ اس کے تمام ووٹ ایک شخصیت یعنی الطاف حسین کے تابع تھے۔ ایم کیو ایم کو حمایت پر آمادہ کرنے کے لیے میاں نوازشریف نے الطاف حسین سے ملاقات کی اور بے نظیر بھٹو بھی ایم کیو ایم کے مرکز عزیز آباد پہنچیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت بننے کی صورت میں ایم کیو ایم کو اس کا اتحادی بننا زیادہ سود مند نظر آیا لہٰذا ایم کیو ایم نے بے نظیر کا کھلے دل کے ساتھ استقبال کیا۔
(جاری ہے)