قسط ہفتم
سلسلہ ہٰذا کا اولین مضمون 5 اکتوبر 2023ء کو روزنامہ اسلام میں شائع ہوا، اگرچہ مابعد اشاعت ملکی سیاست میں کئی اہم پیش رفت ہو چکی ہیں، تاہم فروری 2024ء میں ہونے والے عام انتخابات کے تناظر میں تاریخ کے یہ اوراق انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، قاریین اور سیاسیات کے طلبہ کی دل چسپی کے لیے یہ مضمون سلسلہ وار افکار پر شائع کیا جا رہا ہے۔
ایم کیو ایم نے محترمہ بے نظیر کے سامنے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ رکھا۔ دونوں پارٹیوں میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا جو طویل ہوتا گیا، پیپلزپارٹی نے مذاکراتی ٹیم میں کسی اہم یا منتخب شخصیت کو شامل نہیں کیا۔ ایم کیو ایم کی مرکزی قیادت، مذاکراتی ٹیم اور نو منتخب ارکان تقریباً سبھی، نوجوان نا تجربہ کار اور قومی سیاست میں نو وارد تھے۔ صاف پتا چلتا تھا کہ پیپلزپارٹی صدر غلام اسحاق خان کی طرف سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی بطور وزیراعظم نامزدگی کے اعلان تک اور ایم کیو ایم کی پوزیشن کو کمزور کرنے کے لیے مذاکرات کو طول دے رہی ہے۔ ایم کیو ایم اپنے کئی بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ گئی، اس نے صوبے کے اہم عہدوں اور مرکز میں وزارتوں کے حصول پر بھی زور نہیں دیا حتیٰ کہ صوبائی وزارتوں کا معاملہ بھی محترمہ کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ ایم کیو ایم کا یہ معاہدہ مجبوری کا تھا کیونکہ فیصلہ ساز پیپلزپارٹی کو اقتدار دینے کا فیصلہ کر چکے تھے۔
امریکا، بھارت اور روس سمیت دیگر ممالک کے سفیروں نے محترمہ سے ملاقاتیں کیں۔ صدر غلام اسحاق خان نے اقتدار منتقل کرنے کے لیے سیاسی راہنماؤں سے صلاح مشورے کا آغاز کر دیا اور مختلف سیاسی قائدین کو ایوانِ صدر مدعو کیا۔ پیپلزپارٹی کا موقف تھا کہ چونکہ وہ ایوان میں واحد اکثریتی جماعت ہے اس لیے اس کے امیدوار کو وزیراعظم کے لیے نامزد کیا جائے جبکہ آئی جے آئی نے موقف اپنایا کہ وزیراعظم کے امیدوار کی نامزدگی سے پہلے قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کرایا جائے جس جماعت کے امیدوار یہ عہدے حاصل کر لیں اس جماعت کے امیدوار کو وزیراعظم نامزد کردیا جائے۔
صدر غلام اسحاق خان نے اپنے صوابدیدی اختیار کے تحت پاکستان پیپلزپارٹی کی شریک چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم نامزد کر کے حکومت بنانے کی دعوت دے دی۔ ایم کیو ایم کے بعد اب آزاد ارکان کی اکثریت بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ مل گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہ نامزدگی حاصل کرنے کے لیے پیپلزپارٹی کی گیارہ سالہ جدوجہد کے برعکس کچھ سمجھوتے بھی کرنا پڑے۔ جیسے افغان پالیسی سمیت خارجہ امور کا تسلسل برقرار رکھنا، صدر غلام اسحاق خان کو آیندہ صدر اور صاحبزادہ یعقوب علی خان کو وزیر خارجہ بنانا، ایٹمی پروگرام اور تنصیبات سے دور رہنا، ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف زبان بند رکھنا وغیرہ۔
تاریخ 2 دسمبر 1988ء، جمعہ کا دن تھا جب بعد نماز جمعہ ایوان صدر میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملک کے گیارہویں وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ وہ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ اسی شام قوم سے خطاب میں انہوں نے مارشل لاء دور کے غیرمنصفانہ اقدامات اور زیادتیوں کے خاتمے کا اعلان کیا۔ پنجاب میں میاں نوازشریف، سندھ میں سید قائم علی شاہ، سرحد (کے پی کے) میں آفتاب احمد خان شیرپاؤ وزیراعلیٰ بن گئے جبکہ بلوچستان میں میر ظفراللہ جمالی اور ان کے مخالف دونوں کو اکیس اکیس ووٹ ملے تو اسپیکر کے کاسٹنگ ووٹ میں جمالی صاحب کو وزیراعلیٰ بلوچستان بنوا دیا۔
اگلے دن ملک معراج خالد اسپیکر قومی اسمبلی اور بیگم اشرف عباسی ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوگئیں۔ معراج خالد 1977ء میں توڑی گئی قومی اسمبلی کے بھی اسپیکر تھے جبکہ بیگم اشرف عباسی 1973ء سے 1977ء تک ڈپٹی اسپیکر رہی تھیں۔ اس سے اگلے دن وفاقی کابینہ تشکیل دیتے ہوئے محترمہ نے صاحبزادہ یعقوب علی خان کو وزیر خارجہ بنا کر”سمجھوتوں“ پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا۔ سمجھوتوں کی پاسداری کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی نے نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کو صدرِ مملکت منتخب کرا دیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کو ان کی جمہوری خدمات اور قربانیوں کی وجہ سے صدرِ مملکت بنانے کا جو فیصلہ کیا گیا تھا پیپلزپارٹی نے ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کے لیے اس سے انحراف کیا۔ بابائے جمہوریت کو اسٹیبلشمنٹ کے مضبوط ستون غلام اسحاق خان کے مقابلے میں سب سے زیادہ ووٹ بلوچستان اسمبلی سے ملے۔
سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان کے صدرِ مملکت بننے کے بعد اس عہدے کے لیے انتخاب ہوا تو وسیم سجاد بظاہر آئی جے آئی لیکن درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کے امیدوار تھے۔ صدر غلام اسحاق خان کے دیرینہ دوست اور آزاد پارلیمانی گروپ کے رکن سینیٹر طارق چودھری پیپلزپارٹی کے امیدوار بن کر میدان میں آئے لیکن وسیم سجاد چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے۔
ابھی محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم بنے بمشکل دو ہفتے ہوئے تھے کہ گورنر بلوچستان جنرل (ر) موسیٰ خان نے وزیراعلیٰ میر ظفراللہ جمالی کے مشورے پر صوبائی اسمبلی توڑ دی۔ میر ظفراللہ خان جمالی اسپیکر کے کاسٹنگ ووٹ کی بنیاد پر وزیراعلیٰ بنے تھے انہوں نے ابھی اعتماد کا ووٹ بھی نہیں لیا تھا۔ اس پر ملک بھر میں شدید ردعمل ہوا اور حکومت کے اس اقدام کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔
دسمبر 1988ء کے آخر میں اسلام آباد میں چوتھی سارک کانفرنس ہوئی، کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی پاکستان کے پہلے سرکاری دورے پر اسلام آباد آئے، اس سے پہلے وہ غیر سرکاری طور پر پاکستان اس وقت آئے جب خان عبدالغفار خان کا انتقال ہوا تھا۔ کانفرنس کی صدارت محترمہ بے نظیر بھٹو نے کی، راجیو گاندھی نے خطاب کرتے ہوئے جمہوری حکومت کے قیام کی تعریف کی اور کہا کہ پاک بھارت دوستی کی نئی صبح طلوع ہوگی اور دونوں ملک نئی بنیادوں پر مستحکم اور پائیدار دوستی کا آغاز کریں گے۔
(جاری ہے)