سوشل میڈیا پر وفاقی وزیر احسن اقبال صاحب کا ایک خط گردش میں ہے جو موصوف نے وزیراعظم پاکستان جناب میاں محمد شہباز شریف کو لکھا ہے۔ اس خط میں احسن اقبال صاحب نے باقاعدہ ایک چارج شیٹ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور اس کی جملہ قیادت، اس کے موجودہ چئیرمین ڈاکٹر مختار احمد، پاکستان کے اعلی تعلیمی سیکٹر، جامعات اور وائس چانسلرز کے خلاف جاری کی ہے کہ ایچ ای سی اور اعلی تعلیمی سیکٹر مطلوبہ مقاصد و اہداف کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ ہم نے جب پہلی بار یہ خط پڑھا تو یوں محسوس ہوا کہ شاید موجودہ حکومت کا کوئی شدید ناقد اور سیاسی مخالف پوائنٹ اسکورنگ کے لیے حکومت کے مقرر کردہ چئیرمین ایچ ای سی کے خلاف بیان بازی کرتے ہوئے رنگ بازی پر اتر آیا ہے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں وزیراعظم پاکستان نے ڈاکٹر مختار احمد کو، اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے، مزید ایک سال کے لیے بطور چیئرمین ایچ ای سی مقرر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی احسن اقبال صاحب کے خط کا سوشل میڈیا کو لیک کیاجانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں ادارہ جاتی کشمکش، اختیارات کی جنگ اور عدم برداشت کا رویہ کس سطح تک سرایت کر چکا ہے۔ احسن اقبال صاحب اپنی بعض ناآسودہ خواہشات کی بنیاد پر ڈاکٹر مختار احمد سے خوش نہیں ہیں مگر اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے اس خط میں اپنی ہی حکومت کو چارج شیٹ کر دیا ہے کہ ان کی حکومت اعلی تعلیم کے فروغ کے لیے کوئی بھی ڈھنگ کا کام نہیں کر سکی۔ جب حکومت کے مخالفین اسی طرح کی تنقید کرتے ہیں تو حکومتی وزراء چیں بچیں کرتے نظر آتے ہیں مگر یہی کام احسن اقبال صاحب کریں اور تماشا بنانے کے لیے ان کے خط کو لیک بھی کر دیا جائے تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ان نادان دوستوں کی موجودگی میں حکومت کو کسی دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ احسن اقبال صاحب کا خط پڑھ کر ہمیں بے اختیار سابق وفاقی وزیر غلام سرور خان یاد آ گئے کہ شتر بے مہار کی طرح اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر موصوف نے اپنی ہی حکومت کے ماتحت ادارے پی آئی اے کے پائیلٹس کے خلاف جعلی ڈگریوں کا الزام جڑ دیا تھا۔ موصوف الزام لگا کر ایک طرف بیٹھ گئے تھے اور پی آئی اے پر بین الاقوامی سطح پر پابندیاں لگنا شروع ہوگئیں کہ جب ایک وزیر خود یہ بات کہہ رہا ہے تو مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ احسن اقبال صاحب نے ایچ ای سی کے خلاف خط لکھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی عقل و دانش غلام سرور خان کی سطح کی ہے۔ یہ موصوف کا پاکستان کی اعلی تعلیم پر خود کش حملہ ہے جس نے ہمارے پہلے سے نڈھال جسد قومی کو مزید زخموں سے چور چور کر دیا ہے۔ پاکستان کےبیرون ملک اعلی تعلیم کے میدان میں جاری بین الاقوامی نوعیت کے مشترکہ پراجیکٹس، تکنیکی معاونت کے پروگراموں سمیت ایچ ای سی کے متعدد انتہائی اہم کاموں کو احسن اقبال صاحب کے اس غیر ذمہ دارانہ خط سے شدید دھچکا لگنے کا اندیشہ ہے۔
احسن اقبال صاحب کی شہرت بظاہر ایک پڑھے لکھے شخص کی ہے مگر ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ فیصل آباد کے آٹھ بازاروں کے بیچوں بیچ قائم گھنٹہ گھر کی مانند اختیارات و توجہ کا مرکز بننا چاہتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی نرگسیت ، خود سے شدید متاثر ہونے کے لاعلاج مرض اور ہر قسم کے اختیار کو سلب کرنے کی بے لگام خواہش نے انہیں ایک ایسے نفسیاتی عارضے میں مبتلا کر دیا ہے جس کا شکار ہو کر وہ یہ چاہتے ہیں کہ جو بات وہ کہہ دیں وہ حرف آخر بن جائے۔ من پسند نتائج حاصل نہ ہونے پر وہ ہذیان کا شکار ہو کر فرینڈلی فائر کر کے اپنی ہی حکومت کو مجروح کر بیٹھتے ہیں۔ یاد رہے کہ موصوف پر آج کل زیادہ جھنجھلاہٹ اور فرسٹریشن کا غلبہ اس لیے بھی ہے کہ ان کے ممدوح جنرل (ر) فیض حمید مکافات عمل کا شکار ہیں۔ احسن اقبال صاحب کے جنرل (ر) فیض حمید کے ساتھ دیرینہ تعلقات تھے اور یہ تعلقات اس وقت بھی پورے عروج پر تھے جب میاں محمد نواز شریف اور ان کا خاندان جبر کی چکی میں پس رہا تھا۔ احسن اقبال صاحب اس وقت اسلام آباد کے محفوظ مقامات پر جنرل فیض کی ٹیم کے ساتھ مل کر حب الوطنی کے پراجیکٹس چلانے کی منصوبہ بندی کرتے تھے اور بھاری بجٹ کے ان پراجیکٹس میں موصوف بطور ارسطو شریک ہو کر اپنا حصہ وصول کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ احسن اقبال نے فیض آباد کمیشن کے سامنے پیش ہو کر جنرل فیض حمید کو پوری طرح بیل آؤٹ کیا اور اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی پیٹھ میں چھری گھونپ دی۔
احسن اقبال صاحب کے اس قدر غصے اور ناراضگی کی ایک اور وجہ ان کی اپنی دانست میں ہونے والی وہ ناقدری ہے جو اس وقت پلاننگ کمیشن میں کی جا رہی ہے۔ وہ خود کو ایک عبقری اور سرمایہ و نادر روزگار قسم کی شخصیت سمجھتے اور باور کرواتے مگر اس وقت پلاننگ کمیشن میں ان کے نائب اس جھانسے میں آئے بغیر ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں آزادی سے میرٹ پر فیصلے کر رہے ہیں۔ احسن اقبال صاحب کی نارووال سینٹرک اپروچ سے ہر شخص نالاں ہے کہ آخر ملک و قوم کے کتنے وسائل اس شخص نے ایک حلقے میں جھونک کر ضائع کرنے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں وہاں انجینئرنگ یونیورسٹی کے نام پر اربوں روپے لگا دیے گئے ہیں، جب ملک کی بڑی انجینئرنگ کی یونیورسٹیوں کے لیے وسائل کی شدید کمی ہے اور طلباء کے داخلے تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ پلاننگ کمیشن کے ذمہ داران وزیراعظم پاکستان کے وژن کی روشنی میں ملک کے اندر وسیع البنیاد ترقیاتی انفراسٹرکچر کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں ہیں اور اس کام میں سب سے بڑی رکاوٹ احسن اقبال صاحب خود ہیں۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ گذشتہ کئی سالوں کے دوران موصوف نے جن پراجیکٹس کو زور زبردستی سے ترقیاتی پروگرام میں شامل کروایا ہے ان کی کارکردگی کا مکمل آڈٹ کیا جائے تاکہ ارسطو دوراں کے دعوؤں کی قلعی کھل سکے۔
موصوف باضابطہ طور پر کبھی بھی اعلیٰ تعلیم کے سیکٹر سے وابستہ نہیں رہے مگر خواہش نفس سے اتنے مغلوب ہیں کہ جز وقتی تدریسی سرگرمیوں کی بنیاد پر خود کو پروفیسر کہلوانے پر اصرار کرتے ہیں۔ پلاننگ کے اپنے وزارتی پورٹ فولیو کو استعمال کر کے ہر اس کام میں ٹانگ اڑاتے ہیں جس کے بارے میں ان کی معلومات سرسری اور سطحی نوعیت کی ہیں۔ اوسط درجے کے مینجمنٹ کنسلٹنٹ اور سستے موٹیویشنل اسپیکرز کی سطح کے فہم و تدبر کے حامل احسن اقبال صاحب ہمیشہ مخصوص اور گھسی پٹی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے دوسروں کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موصوف کی کسی بھی تقریر کا مرکزی موضوع ہارورڈ بزنس ریویو ٹائپ کے جرائد سے کشید کردہ معلومات کا ناقص چربہ ہوتا ہے جس کی جگالی وہ ہمیشہ بغیر کسی ریفرنس کے اپنی علمیت جھاڑنے کے لیے کرتے رہتے ہیں۔ جو شخص ان کے مبلغ علم کی حقیقت کو بھانپ لے اسے موصوف غضبناک ہو کر ناپسند کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنی اس انا بھری سوچ کے ساتھ وہ ایچ ای سی، انجینئرنگ کونسل، نارووال یونیورسٹی سمیت ہر جگہ مداخلت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک فرمان جاری کر دیں اور پھر اسے شاہی فرمان کا درجہ دے کر سب ادارے اس پر عمل درآمد کرنے لگ جائیں۔ یونیورسٹی آف نارووال کے سابقہ ذمہ داران سے کوئی پوچھ لے کہ بظاہر امریکہ کی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل احسن اقبال صاحب اپنے حلقے میں قائم یونیورسٹی میں کس طرح رعونیت سے مداخلت کر کے تعیناتیاں کروانے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔
ویسے تو موصوف کو ہر جگہ مداخلت کا موذی و لاعلاج مرض لاحق ہے مگر وہ اتنے بھی سادہ نہیں ہیں۔ آپ انہیں اعلی تعلیم کی اصلاح کے نام پر کبھی بھی نسٹ، این ڈی یو، ائیر یونیورسٹی اور اس قبیل کے کسی بھی دوسرے ادارے میں ٹانگ اڑاتے نہیں دیکھیں گے۔ احسن اقبال صاحب کا چنگھاڑتا ہوا لہجہ، تنقید بھرے خطوط اور طعنوں سے لپٹا رویہ صرف کمزور افراد اور اداروں کے لیے ہی ہوتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل تک تو احسن اقبال صاحب اعلی تعلیم کے میدان میں حاصل کی گئی کامیابیوں کو اپنی حکومت کی شاندار کارکردگی قرار دیتے تھے۔ یاد رہے کہ گذشتہ کچھ سالوں کے دوران ایچ ای سی کی طرف سے شروع کیے گئے اکثر پراجیکٹس پر تو احسن اقبال صاحب کے نام کی تختیاں لگی ہوئی ہیں۔ اب اچانک وہ اپنے ان کارناموں سے دستبردار ہو کر ایچ ای سی اور اس کی قیادت پر پل پڑے ہیں۔ آج وہی احسن اقبال صاحب ایچ ای سی اور اس کی قیادت کے خلاف خط لکھ رہے ہیں کہ گویا اس ادارے نے کوئی بھی اچھا کام نہیں کیا ہے۔ ہم احسن اقبال صاحب سے کہیں گے کہ وہ تعصب اور تنگ نظری سے نکلیں۔ اپنا دل بڑا کریں اور تسلیم کر لیں کہ ہر کام، تعیناتی اور فیصلہ ان کی مرضی سے نہیں ہو سکتا۔ تعلیم انسان کو عاجزی سکھاتی ہے مگر ہمارے وزیر موصوف پر تو بیرون ملک سے حاصل تعلیم کا الٹا اثر ہوا ہے۔ وہ ایک بہت ہی شائستہ اور خوف خدا رکھنے والی ماں کے بیٹے ہیں مگر جس ڈگر پر وہ چل پڑے ہیں اس سے دور دور تک بھی نہیں پتا چلتا کہ موصوف کس قدر عالی نسبت کے حامل ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ موصوف کے طویل سیاسی کیریئر کا انجام ایک المیہ کی صورت میں ہو مگر وہ بہت تیز رفتاری سے اس سمت بڑھ رہے ہیں۔
نوٹ: جناب احسن اقبال صاحب کا انگریزی خط اور اس پر اردو میں لکھی گئی تنقید دونوں کا مآخذ سوشل میڈیا ہے۔ افکار فاؤنڈیشن کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ تاہم ہائر ایجوکیشن کمیشن ، جناب احسن اقبال صاحب، یا کوئی اور انگریزی خط یا اردو تحریر کے تناظر میں کچھ لکھنا چاہیے تو ہم انہیں شائع کرنے کے پابند ہیں۔ ایڈیٹر
1 تبصرہ
بہت اعلیٰ