یورپی یونین میں ‘فیک معلومات‘ کے پھیلاؤ پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘ای یو ڈس انفو لیب‘ نے ایک حالیہ عبوری رپورٹ میں ایسی 265 ویب سائٹس کی نشاندہی کی ہے جو پاکستان کے خلاف پروپیگینڈا مواد شائع کر رہی ہیں۔
ای یو ڈس انفو لیب‘ کے مطابق پينسٹھ مختلف ممالک میں صارفين ان میڈیا اداروں کی ويب سائٹس پر شائع کردہ مواد پڑھ رہے تھے، جنہيں ايک بھارتی نیٹ ورک چلاتا ہے۔ ادارے کے مطابق ‘ان ویب سائٹس پر جاری کردہ مواد سے اقوام متحدہ اور یورپی یونین ميں پاکستان کی ساکھ متاثر کيے جانے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس سال اکتوبر میں ‘ای یو ڈس انفارمیشن‘ کی ایک ٹاسک فورس نے ‘ای پی ٹو ڈے‘ نامی ایک ویب سائٹ کی نشاندہی کی۔ ویب سائٹ پر دعوی کيا گيا ہے کہ وہ برسلز میں یورپی پارلیمنٹ کا ایک آن لائن میگزین ہے۔ اس ویب سائٹ پر پاکستان میں اقلیتوں سے متعلق بے تحاشہ مضامین شائع کیے گئے۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ اس ویب سائٹ کو بھارتی ‘اسٹیک ہولڈرز‘ چلا رہے ہیں، جن کا ایسے تھنک ٹینکس، این جی اوز اور کمپنیوں سے تعلق ہے جو ‘سری واستوو گروپ‘ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ‘ای یو ڈس انفو‘ کو یہ بھی پتہ چلا کہ ‘سری واستوو گروپ‘ سے منسلک آئی پی ایڈریس کے ذریعے ‘نیو دہلی ٹائمز‘ اور ‘ انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار نان الائنڈ اسٹڈیز‘ نامی میڈیا ویب سائٹس بھی چلائی جا رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ‘انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار نان الائنڈ اسٹڈیز‘ کی جانب سے یورپی پارلیمان کے ستائیس اراکین کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ داخلی سطح پر اس دورے پر تنقيد کرنے والے چند صحافيوں کو يورپی اراکین پارلیمان کے دورے کی فنڈنگ سے متعلق ‘انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار نان الائنڈ اسٹڈیز‘ اور ‘ای پی ٹوڈے‘ کے تعلق کا معلوم ہو گیا۔
‘ای یو ڈس انفو لیب‘ کی جانب سے شائع ہونے والی عبوری رپورٹ پڑھ کر یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ آيا اس ‘پروپیگینڈا‘ میں بھارت کی حکومت ملوث ہے۔ بھارت میں فیک نیوز کی نشاندہی کرنے والے ادارے ‘آلٹ نیوز‘ کے شریک بانی پراتیک سنگھ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”دراصل یہ کام غیر قانونی نہیں ہے۔ وہ پروپیگینڈا مواد شائع کر رہے ہیں اور اس بارے میں کسی تنظیم کی جانب سے رپورٹ شائع ہونے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘ اس پروپیگینڈا نیٹ ورک میں شامل ویب سائٹس کے نام اکثر نامور نیوز اداروں سے ملتے جلتے ہیں جیسے کہ ٹائمز آف۔۔، کرانیکل۔۔، ٹریبیون۔۔۔ وغیرہ۔ ایسے نام لوگوں کو تاثر دیتے ہیں کہ یہ کوئی معتبر نیوز ویب سائٹ ہے۔ لیکن ‘ای یو ڈس انفو لیب‘ کے مطابق یہ ایک منظم نیٹ ورک ہے جو بڑے پیمانے پر جانبدار مواد پھیلا رہا ہے۔
‘ای یو ڈس انفو لیب‘ کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر الیگزینڈر الافیلیپے نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”ایسی پروپیگینڈا ویب سائٹس چلانے کا مقصد بین الاقوامی اداروں اور پارلیمان کے نمائندوں پر اثر انداز ہونا ہے۔ یہ نیٹ ورک ایک ہی طرح کے مواد کو کئی نیوز ویب سائٹس پر ایسے شائع کرتے ہیں جس سے ایک صارف کو لگتا ہے کہ خبر کی بین الاقوامی سطح پر اہمیت ہے حالانکہ حقیقیت میں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘
الافيليپے نے یہ بھی کہا کہ یہ نیٹ ورک سرچ انجنز پر پاکستان کے خلاف دستیاب مواد کو مختلف ذرائع سے نشر کرتے ہیں تاکہ عوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ منفی طور پر متاثر ہو۔ ان کے مطابق ایسا کوئی بین الاقوامی قانون موجود نہیں، جو کسی ادارے کو پروپیگینڈا کرنے سے روکے۔ دوسری جانب پراتیک سنہا کا کہنا ہے کہ گوگل اور فیس بک جیسے اداروں کو چاہیے کہ وہ ایسی ویب سائٹس کو اپنی رینکنگ میں نیچے کريں تاکہ لوگ ان ویب سائٹس کو وزٹ نہ کر سکيں۔
پاکستان میں سائبر سکیورٹی سے متعلق کام کرنے والے ادارے ‘بائٹس فار آل‘ کے شہزاد احمد نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”یہ معاملہ منظم سائبر آرمیوں کا ہے، جو ایک خاص نظریے کو پھیلا رہے ہیں۔ حکومتوں کے اس میں ملوث ہونے کے اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔‘‘