معروف فلسفی مورخ جولیان بجینی کی کتاب اے شارٹ ہسٹری آف ٹروتھ: کنسولیشنز فار اے پوسٹ ٹروتھ ورلڈ پر معروف تجزیہ کار محمد عامر رانا کا تبصرہ
سچ کی کو ئی تاریخ ہے؟ یہ سوال بجائے خود ایک تاریخ ہے یا پھر ایسی دنیا میں تاریخ کی کوئی شے بن کر رہ گیا ہے جو سچ کو متبادل حقیقت کے طور پر دیکھنےکی جانب تیزی سے مائل ہو رہی ہے۔ ہمارے ہاں عمومی تصور یہ پایا جاتا ہے کہ سچ فطرتِ انسانی کا وصفِ لازم ہے یا تمام جاندار مخلوقات کی جبلتِ ازلی ہے۔ تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ سچ کو ہمیشہ انسانوں کی ایسی خاصیتِ طبعی کے طور پر دیکھا گیا ہے جو مہ و سال کے پیہم تغیر کے ساتھ پنپتی رہی ہے، جس نے صدیوں سے ہزار ہا تہذیبی، سماجی اور ثقافتی بھوگ بھوگے ہیں۔ مذہب کو سچ کی قدروں کا اولین امین خیال کیا جاتا ہے، جو ان قدروں کی تطہیر و بنیاد اور جھوٹ کی شناخت کے لیے بطور معیار اس کی افزائش و نمو کا دعویٰ رکھتا ہے۔
آج کی دنیا میں تہذیبی عمل کی برق روی کے سبب سچ اور جھوٹ کو جانچنے کے نئے تناظرات جنم لے رہے ہیں، ’’ما بعد سچ‘‘ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ فلسفی مورخ جولیان بجینی اپنی تازہ تصنیف،”سچ کی مختصر تاریخ: ما بعد سچ دنیا کی اشک شوئی‘‘ میں فلسفیانہ نقطہِ نگاہ سے اسی نظریے کو زیرِ بحث لائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ سچ کی ابھی تک ایسی کوئی مطہر صورت سامنے نہیں آئی کہ جس پر سوال اٹھانے کی قطعی ضرورت نہ ہو، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ سچ کبھی رواج نہیں پا سکتا۔ انہوں نے سچ کی دس صورتیں بیان کی ہیں جو دراصل فلسفیانہ منطقی مباحث کا نچوڑ ہیں، اور وہ انہیں کی بنیاد پر سچائیوں کی تاریخ کھنگال لائے ہیں۔ وہ سچ کی درج ذیل اقسام تحریر کرتے ہیں: دائمی، مستبد، مخفی، منطقی، مثبوت (ثابت شدہ)، اختراعی ( تخلیقی، ایجادی)، اضافی، طاقت ور، اخلاقی اور کُلّی۔
صاحبِ کتاب بذات خود اخلاقی سچائیوں کے پرچارک نظر آتے ہیں۔ وہ سچ کی قدر و اہمیت پر یقین کے احیا کی آروز رکھتے ہیں اور ایک سماجی قوت کے طور پر اس کی بحالی کے امکانات کے خواہش مند ہیں۔ بڑے وثوق سے وہ یہ بات کہتے ہیں کہ سچ کے متلاشیوں کو کلبیت کی بجائے تشکیکیت کا پیرو ہونا چاہیے۔ در حقیقت وہ سچ کو تہذیبِ انسانی کی اولین اور بنیادی قدر کے طور پر دیکھتے ہیں اور ان کے خیال میں تیزی سے بدلتی دنیا میں اسے قدرِ متروک نہیں بن جانا چاہیے۔ باوجود اس کے کہ زمانہِ حال میں سچ آسان اور سادہ نہیں رہا، بجینی کا کہنا ہے کہ اس بات کے پھر بھی کوئی شواہد نہیں ہیں کہ بیشتر لوگ اب سچ پر ایمان نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا سچ کو خدا حافظ کہنے پر آمادہ ہے نہ ہی وہ ایسی کوئی خواہش رکھتی ہے۔
جولیان بجینی وضاحت کرتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے اور ہماری پسند نا پسند میں ہمارے جذبات کا کافی عمل دخل رہتا ہے۔ سچائیوں کو احاطہِ ادراک میں لانا، ان کی دریافت اور تشریح و توثیق کرنا نہایت کٹھن ہے۔ جذبات نہ صرف سچ کو مجروح کرتے ہیں بلکہ ایک ایسی صورتِ حال پیدا کرتے ہیں جس میں ہر ایک سچائیوں کی تفہیم کے لیے ایک خود ساختہ راہ استوار کر لیتا ہے۔ مصنف اسے ممکنہ طور پر مابعد سچ مشروطیت کا عمل تصور نہیں کرتے بلکہ اسے ایک ایسی متناقضانہ نفسیات کا مظہر سمجھتے ہیں جس کے تحت لوگوں کی اکثریت اکثریتی رائے کو قبول نہیں کرتی۔ وہ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں، ’’بہ الفاظِ دگر، لوگوں کی کثیر تعداد کم از کم کسی ایک ایسے الہامی تصور پر ایمان ضرور رکھتی ہے، جسے باقی ماندہ اکثریت جھٹلا چکی ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہر اس شخص کے لیے عبرت ہے جو کسی اجتماعی دانش پر اعتماد کرتا ہے۔‘‘
مصنف کے نزدیک سچ کے متلاشیوں کی ایک دل چسپ قسم مطلق ظاہر پرستوں کی ہے جو اپنے ایقان کو مجازی استعارات و تمثیلات سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے، حتیٰ کہ ظاہر پرستی سے متعلق بھی ان میں سے بیشتر کا رویہ ’جو دل کو بھائے لو، جو نہ بھائے پھینک دو‘ جیسا ہے؛ جو کچھ چیزوں کو سچ مان کر ان پر یقین کر لیتے ہیں اور باقی کو قصے کہانیاں کہہ کے رد کر دیتے ہیں۔
باب چہارم منطقی سچ کے بارے میں ہے اور عملِ استنباط کی وضاحت کرتا ہے۔ عملِ استنباط کے دوران میں ایک فرد کی قائم کردہ آراء اہم ہو جاتی ہیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ معقول بھی ہوں۔ تاہم مخفی یا پوشیدہ سچائیوں کا اپنا دائرہ ہے۔ یہ ایک انتہائی قدیمی تصور ہے کہ کچھ سچ ایسے ہیں جنہیں محض چند ایک افراد پر افشا کیا گیا ہے اور یہی تصور عقیدے کی بنیاد ہے، جہاں نہ صرف تمام مذاہب بلکہ سائنس اور توہمات ہم آمیز ہو جاتے ہیں۔
صاحبِ تصنیف سازشی نظریات سے اعراض نہیں برتتے بلکہ وہ انہیں سچ تک پہنچنے کا راستہ خیال کرتے ہیں۔ وہ اس بات کا نمایاں اظہار کرتے ہیں کہ تجربات میں پیش رفت نہ ہونے کی بنا پر سائنس دان زیرِ غور مفروضے سے مکمل طور پر دست بردار نہیں ہو جاتے بلکہ وہ اختیار کردہ طریقہ ہائے کار اور قیاسات پر نظرِ ثانی کرتے ہیں تاکہ غلطی کی نشاندہی ہو سکے، اس طرح موافق اور موزوں تجربات سے مفروضے کو پرکھنے کی دوبارہ کوشش کی جاتی ہے۔ بعینہِ ان لوگوں کو بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے جو یہ جائزہ لینے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ اگر سچ اور منطقیت کو سیاست و حکومت میں مرکزی مقام حاصل ہو جائے تو اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ مگر شاید ہم غلط چیزوں کو کھنگالتے رہے ہیں۔ جولین بجینی اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ کسی مطلق سچ کی علتِ اصلی کا موجود نہ ہونا ممکنات میں سے ہے۔ ان کے مطابق عقلیت ایک ایسا آمیزہ ہے جو محض منطق سے تیار نہیں ہوتا بلکہ اس کے اجزائے ترکیبی میں تجربہ و مشاہدہ، ثبوت و شواہد، فہم و ادراک، نکہتِ خیال اور ابہام کے لیے حساسیت شامل ہیں۔ در اصل عقلیت سچ کے قریب تر لے جانے کا ایک با اعتماد راستہ ہے۔
مصنف حقیقت پر مبنی سچائیوں کے تفصیلی بیان کے ضمن میں بنیادی طور پر اٹھارویں صدی کےسائنسی نقطہِ نظر اور تجرباتی سچائیوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ یہاں وہ خالصتاً الٰہیانہ زاویے سے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایسا طرزِ عمل ہمیں آگہی سے روشناس کرانے کی بجائے غیریقینیت کے اندھیروں میں لا کھڑا کرتا ہے، کیوں کہ غیر یقینیت تجرباتی سچائیوں کا لازمہ ہے۔ دوسری طرف وہ اس بات پر بھی متفق ہیں کہ تجرباتی آزمائش کے لیے سچ کی ہمہ دم موجودگی اسے مزید معتبر بناتی ہے۔
صاحبِ کتاب یہ توضیح کرتے ہیں کہ طاقت یا عہدہ کسی بیان کو سچ یا مبنی برحقیقت نہیں بنا تے۔ وہ اس تناظر میں نو گیارہ کے 11 دنوں بعد منعقدہ کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے خطاب کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب امریکی صدر نے دنیا سے کہا تھا کہ ’’یا تو تم ہمارے ساتھ ہو، یا پھر دہشت گردوں کے‘‘، اس وقت وہ کوئی حقیقت نہیں بیان کر رہے تھے، بلکہ وہ اتمامِ حجت کر رہے تھے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اس جملے سے پیش تر ادا کیے جانے والا جملہ سب کچھ واضح کر رہا ہے، جو عموماً بیان نہیں کیا جاتا کہ ’ہر خطے کی ہر قوم کو یہ فیصلہ ابھی کرنا ہے۔‘ صدر بش کا یہ کہنا سچ کا بیان نہیں، بلکہ سچ کی اختراع تھا۔ اور یہ کہہ کر کہ آج سے یا تو کوئی قوم ہمارے ساتھ ہے، یا پھر ہمارے خلاف، دراصل وہ اپنے کہے کو سچ کر کے دکھا رہے تھے۔‘‘
جدیدیت نے سچ کے دائرے کو مزید وسعت عطا کردی ہے اور اسی سبب اختراعی سچ کو قبولِ عام حاصل ہو گیا ہے۔ جس طرح الفاظ کا بدلاؤ سچ کو بدل سکتا ہے اسی طرح نئی سچائیاں اصطلاحات کے معنیٰ و مفہوم بدل سکتی ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ ہم جنس پرستانہ شادیوں نے ’شادی‘ کے معانی ہی بدل کر رکھ دیے ہیں، اور اب شادی کے تقاضوں سے متعلق نئی سچائیاں جنم لے رہی ہیں۔ مصنف اضافی سچ کی ردِ تشکیل پر بھی قلم اٹھاتے ہیں، لیکن وہ اسے مبالغہ آرائی سے بالکل الگ تھلگ قرار دیتے ہیں۔
سچ کو ایک معمہ تسلیم کرتے ہوئے جولیان بجینی اپنے فلسفیانہ دلائل کا نتیجہ پیش کرتے ہیں۔ ان کی جانب سے پیش کی گئی سچ کی 10 اقسام کو اختصار کے ساتھ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
الف- الہامی ’سچائیوں‘ کا تقابل غیر الہامی سچائیوں کے ساتھ نہیں کیا جانا چاہیے، بلکہ انہیں مختلف انواع کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
ب- ہمیں اپنے سے نہیں، اپنے لیے سوچنا چاہیے۔
ج- ہمیں کلبیت نہیں، تشکیکیت کا پیرو ہونا چاہیے۔
د۔ عقلیت تیقن نہیں، نیک نیتی کی متقاضی ہے۔
ر۔ ہم تبھی سمجھ دار ہو سکتے ہیں جب ہم یہ جان لیں کہ ہم کتنے اور کس طرح بے وقوف ہیں۔
س۔ سچائیوں کو کھوجنے کے ساتھ ساتھ انہیں تخلیق کرنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔
ص۔ متبادل تناظرات کو ضرور زیرِ غور لایا جانا چاہیے، لیکن متبادل سچائیوں کے طور پر نہیں، بلکہ سچ کی آرائش و افزودگی کے لیے۔
ط۔ طاقت سچ نہیں بولتی، طاقت کے سامنے سچ کو بولنا چاہیے۔
ع۔ بہتر اخلاقیات کے لیے بہتر آگہی کا ہونا ضروری ہے۔
ف۔ سچ کی کامل تفہیم لازم ہے۔
صاحبِ کتاب کی دیگر تصانیف کی طرح یہ کتاب بھی نہ صرف ماضی و حال کے تناظرات میں ربط قائم کرتی ہے بلکہ ہماری روز مرہ سچائیوں کے دائرہِ کار میں وسعت پیدا کرتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ کتاب اس خیال پربھی معترض ہے کہ ما بعد سچ، سچ سے مختلف نوعیت کی کوئی شے ہے۔
(مترجم: محمد حذیفہ مسعود، بشکریہ تجزیات)