Author: ڈاکٹر عزیز الرحمن
لکھاری قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں قانون کے استاذ اور شعبہ قانون کے سربراہ ہیں۔ قانون ، معیشت ، صحت اور قومی و ملی مسائل پر تواتر سے لکھتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے زاہدہ پروین بنام حکومتِ خیبر پختونخواہ (CPLA No. 566-P/2024) کا ایک جائزہ زاہدہ پروین کیس کے فیصلے میں جسٹس سید منصور علی شاہ نے جس نظریاتی سمت کو اختیار کیا ہے اس سے پاکستان میں خواتین سے متعلق قوانین کی تشریح و اطلاق کے بارے میں بہت سے سنجیدہ سوالات نے سر اٹھایا ہے۔ اس ابھرتی ہوئی عدالتی سوچ اور فکر میں بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدات اور مغربی لبرل فیمنسٹ نظریات کو عدالتی فیصلوں اور قانونی تعبیرات و تشریحات میں ایک کلیدی کردار سونپا گیا ہے۔ اگرچہ خواتین کے خلاف ظلم اور…
ایک زمانہ تھا (1945- 1948) کہ امریکہ نے انٹرنیشنل ٹریڈ آرگنائزیشن کا قیام اپنے تجارتی مفادات کے تحفظ کے لئے روک دیا تھا۔ عشروں کے بعد اسی امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے ترقی پذیر ممالک کو پیار پھٹکار سے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے قیام (1995) پر مجبور کر دیا۔ اس ادارے کے قیام کے ابتدائی سالوں میں جو ہیبت اور شان اس کے ساتھ منسلک تھی اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو ڈبلیو ٹی او کے باضابطہ قیام کے وقت عالمی تجارت کے معاملات پر نظر رکھتے تھے۔ ترقی پذیر اور غریب ممالک پر…
مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے جاری بحث کو محض وقتی تنازعہ کے بجائے ایک وسیع تر تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بحث دراصل کسی مخصوص مسلکی شناخت کی نمائندگی کے حق اور اس بنیاد پر طاقت کے ڈھانچوں (Power Structures) کے ساتھ تعامل کی اجارہ داری کے خاتمے کے دوران پیدا ہونے والے پیچیدہ مسائل کی بازگشت ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر جاری گفتگو بڑی حد تک ایک خاص مسلک کے مدارس کے بارے میں ہو رہی ہے، لیکن اس کا تعلق کسی ایک مسلک تک محدود نہیں ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کسی…
ہمارے معزز جج صاحبان اور وکلاء سائلین کو عدالتی نظام سے ان کے حقوق دلوانے کے لیے تنخواہیں اور فیس وصول کرتے ہیں اور ایسا کرنا ان کا حق ہے۔ یہ حق وصول کرنے کے بعد، جج صاحبان و وکلاء کا فرض بنتا ہے کہ وہ سائلین کے کیسوں کو اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مروجہ عدالتی نظام کے اندر حل کریں۔ اس وقت پاکستان میں متبادل تنازعات کے حل کے طریقوں (Alternative Dispute Resolution – ADR) کے نام پر ایک عجیب سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اعلی عدلیہ کے بعض جج صاحبان اور کچھ وکلاء اس سلسلے…
یونیورسٹیوں میں نئے تعلیمی سال کے داخلے اختتامی مراحل میں ہیں، اور پبلک سیکٹر جامعات کے کئی روایتی پروگرامز اور ڈیپارٹمنٹس کو نئی انرولمنٹ کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کئی ڈگری پروگرامز میں طلبہ کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے، جس کے باعث بعض انجینئرنگ شعبے بند ہونے کے قریب ہیں، حالانکہ ان شعبوں کا قیام سیلف فنانس پروگرامز کے ذریعے اضافی مالی وسائل حاصل کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔ یہی صورت حال سائنس اور سوشل سائنس کے کئی دیگر شعبوں کی بھی ہے۔ اس کے برعکس کمپیوٹر سائنس، آئی ٹی، فارمیسی اور قانون جیسے…
جنہیں لگ رہا ہے کہ ملک ریاض نے اصولوں پر مبنی مزاحمت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے وہ 23 نومبر 2023 کو بحریہ ٹاؤن کیس میں کیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک بار ضرور پڑھ لیں۔ یہ فیصلہ کرنے والا بینچ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تھا۔ اس فیصلے کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ 21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جو دراصل بحریہ ٹاؤن اور سپریم کورٹ کے اس وقت کے سماعت کرنے والے بنچ کے درمیان…
انسان کے اخلاقی وجود کو جو خطرناک بیماریاں لاحق ہیں ان میں جھوٹ اور مبالغے پر مبنی زندگی گزارنے کا فتنہ آج کل کے دور میں سرفہرست ہے۔ ایک وقت تھا کہ انسان کی زندگی کے نجی پہلو پوشیدہ رہتے تھے مگر سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کے دور میں اب کوئی چیز پرائیویٹ رہی ہی نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ انسان کی فیلمی لائف، کام کاروبار، سوشل انٹرایکشن، دولت وسرمایہ وغیرہ سب ہی کی نمود و نمائش اب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہو رہی ہے۔ آج میں نے کیا کھایا، کیا پہنا، کس سے ملاقات کی اور کن اہم لوگوں اور طاقتور حلقوں تک میری رسائی ہے، یہ سب کچھ اب سوشل میڈیا پر نشر ہوتا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جعلی یعنی فیک لائف کا فتنہ اس وقت ہمارے معاشرے میں عروج پر ہے۔
مومنین کو اللہ تعالی نے قول سدید یعنی سیدھی اور سچی بات کرنے کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کسی کے ساتھ مخاصمت و دشمنی میں راہ اعتدال کو ترک نہیں کرنا چاہیئے۔عدت کے دوران نکاح کیس میں عدالتی فیصلے کے بعد ہمارے ہاں حسب سابق افراط و تفریط پر مبنی طرز عمل دیکھنے میں آ رہا ہے جس سے بچنے کی ضرورت ہے۔
انتخابات کی آمد آمد ہے اور کچھ دوست و احباب رابطہ کر کے سوال کرتے ہیں کہ ووٹ کسے ڈالا جائے۔ یہ تحریر صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو کسی نہ کسی درجے میں ہمارے ساتھ محبت و احترام کا رشتہ رکھتے ہیں کیونکہ آج کل کسی بھی سیاسی نوعیت کی رائے کے اظہار پر مخالف رائے کے حاملین فوری طور پر مشتعل ہو کر اپنے اعمال کو ضائع کرنے والا رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اس قسم کے دوستوں کو اس وبال سے بچانے کے لیے مناسب ہے کہ انہیں اس یاد دہانی کے دائرے سے ہی باہر…
پاکستان میں پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کا مالی بحران بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اصلاح احوال کی کسی بھی سنجیدہ کوشش کا دور دور تک نشان تک نہیں ہے۔ تقریبا تمام بڑی اور قابل ذکر پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کا گزشتہ سال اور امسال کا سالانہ میزانیہ کئی ملین روپوں کا خسارہ ظاہر کر رہا ہے۔ اس خسارے کی بنیادی طور پر دو تین بڑی وجوہات ہیں جن میں حکومت کی طرف سے سالانہ تنخواہوں میں اضافہ، ٹرانسپورٹ و یوٹیلیٹی بلز، پینشن اور ہیلتھ بجٹ کے بڑے بڑے خرچے شامل ہیں۔ حکومتوں کی طرف سے تنخواہوں میں اضافہ کر دیا…