Browsing: پاکستان
کیا زمانہ آ گیا! انسانی زندگی کو مطلوب کے مطابق بہتر بنانے کے لیے ’’عقلِ سلیم‘‘ کے بعد اور ساتھ…
معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے‘جتنا خیال کیا جا رہا ہے۔اختلاف اس میں نہیں ہے کہ نعرہ بلند کرتے وقت الفاظ…
سعود عثمانی خالد دفتر جانے کے لیے صبح صبح گھر سے نکلا تو دیکھا کہ بالکل سامنے والے پڑوسی کے…
پاکستان کی سیاست میں اس وقت ایک کھلبلی مچی ہوئی ہے اور حکومت و اپوزیشن ایک دوسرے کو گرانے کے…
سعود عثمانی میں نے مسودے سے نظر ہٹائی اور فاختاؤں کے جوڑے کی طرف دیکھا جو ابھی ابھی لان میں…
میں اس پارک میں پہلی بار نہیں آیا تھا لیکن آج سے پہلے اس تنوع پر کبھی اس طرح سے غور نہیں کیا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ رنگا رنگی ہی ز ندگی کا اصل حسن ہے۔ اگر اس معاشرے میں مصلحین نہ ہوں جو لوگوں کو حیا جیسی اقدار کی طرف متوجہ کرتے ہیں تو انسانی جذبات بے لگام ہو جائیں۔ اگر محبت کرنے والے نہ ہوں تو سماج لطیف احساسات سے خالی ہو جائے۔ کوئی شاعری ہو نہ موسیقی۔ اور اگر پیارے پیارے بچے اور ان کے پیچھے دوڑتی مائیں نہ ہوں تو انسان معصومیت کو کیسے مجسم دیکھے
یوں یہ تاریخ کی پہلی حکومت ہے جو خود اپنی اہم وزارتوں کی کارکردگی کے ناقص ہونے کا اعتراف کررہی ہے۔ اب جو خود اپنی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرے، اگر اس حکومت کے خلاف بھی اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی تو پھر اس اپوزیشن کے رہنما خود کو سیاستدان کہنا چھوڑ دیں۔
ہمارے مقدر میں اور کتنے اجتماعی قتل لکھے ہیں‘صرف عالم کے پروردگار کو خبر ہے جو دلوں کے بھید جانتاہے۔سیالکوٹ کا واقعہ ہمارے لیے چشم کشا ثابت نہ ہو سکا۔علما سے لے کر ریاست تک‘بظاہر سب نے تشویش کا اظہار کیا۔
قائد اعظم نے ہائبرڈ بندوبست نہیں، شفاف جمہوری پاکستان کا درس دیا تھا، قائد کے نصب العین کی طرف لوٹنے ہی میں قوم کی بھلائی ہے۔ دوسرا معاملہ معیشت سے تعلق رکھتا ہے۔ پچھلی نصف صدی میں دنیا بہت بدل گئی ہے۔ آج یہ سوچنا درست نہیں کہ دنیا کو ہماری ضرورت ہے۔ ہمارے دو ہی حقیقی اثاثے ہیں۔ نوجوان آبادی کی بڑی تعداد اور ممکنہ طور پر پانچویں بڑی تجارتی منڈی۔
اگر واقعی پاکستان نے قومی سلامتی کو شہریوں کی معاشی بہتری سے منسلک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اتنی بڑی تبدیلی کے ممکنہ نتائج پر بھی غور کرنا چاہیے۔ کیا ہم گزشتہ پون صدی میں قومی سلامتی کے مختلف بیانیوں کا تنقیدی جائزہ لینے کے لئے تیار ہیں؟ کیا ہم وفاق کی اکائیوں کو ایک جیسا احترام اور حقوق دینے پر آمادہ ہیں۔ کیا ہم کھوکھلے نعروں کی بجائے پیداواری معیشت اور تجارت کو فیصلہ سازی میں ترجیحی کردار دینے پر تیار ہیں۔ کیا ہم امتیازی قوانین اور پالیسیاں ترک کر کے مساوی شہریت کا اصول ماننے پر تیار ہیں۔