Browsing: نقطہ نظر

ہمارے مقدر میں اور کتنے اجتماعی قتل لکھے ہیں‘صرف عالم کے پروردگار کو خبر ہے جو دلوں کے بھید جانتاہے۔سیالکوٹ کا واقعہ ہمارے لیے چشم کشا ثابت نہ ہو سکا۔علما سے لے کر ریاست تک‘بظاہر سب نے تشویش کا اظہار کیا۔

قائد اعظم نے ہائبرڈ بندوبست نہیں، شفاف جمہوری پاکستان کا درس دیا تھا، قائد کے نصب العین کی طرف لوٹنے ہی میں قوم کی بھلائی ہے۔ دوسرا معاملہ معیشت سے تعلق رکھتا ہے۔ پچھلی نصف صدی میں دنیا بہت بدل گئی ہے۔ آج یہ سوچنا درست نہیں کہ دنیا کو ہماری ضرورت ہے۔ ہمارے دو ہی حقیقی اثاثے ہیں۔ نوجوان آبادی کی بڑی تعداد اور ممکنہ طور پر پانچویں بڑی تجارتی منڈی۔

اس وقت افغان عوام کی ہنگامی مدد کے بجائے اور ان کی منجمد رقم میں اوپر سے پیسہ ڈالنے کے بجائے ان کی امانت پر سیند لگانا کسی لاش کی کلائی سے گھڑی اور بے جان پیروں سے جوتے اتار کے بھاگنے جیسا ہے۔کوئی فرد یا ادارہ یہ حرکت کرتا تو شاید صبر آ جاتا مگر 80 سالہ عزت مآب نے اس ایک حرکت سے جس طرح خود کو ذلت مآب میں تبدیل کر لیا ہے، اس پر حیرانی بھی انگشت بدنداں ہے۔

اگر واقعی پاکستان نے قومی سلامتی کو شہریوں کی معاشی بہتری سے منسلک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اتنی بڑی تبدیلی کے ممکنہ نتائج پر بھی غور کرنا چاہیے۔ کیا ہم گزشتہ پون صدی میں قومی سلامتی کے مختلف بیانیوں کا تنقیدی جائزہ لینے کے لئے تیار ہیں؟ کیا ہم وفاق کی اکائیوں کو ایک جیسا احترام اور حقوق دینے پر آمادہ ہیں۔ کیا ہم کھوکھلے نعروں کی بجائے پیداواری معیشت اور تجارت کو فیصلہ سازی میں ترجیحی کردار دینے پر تیار ہیں۔ کیا ہم امتیازی قوانین اور پالیسیاں ترک کر کے مساوی شہریت کا اصول ماننے پر تیار ہیں۔