Browsing: نقطہ نظر

ملکوں کے تعلقات باہمی مفادات کے تابع ہوتے ہیں اور موجودہ حالات میں پاکستان کسی طور پر سعودی عرب سے گلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بیرون ملک سے آنے والی خطیر رقوم اور امداد کو پاکستان میں عوامی فلاح و بہبود کے کسی قابل ذکر پراجیکٹ اور انڈسٹری میں لگانے کے بجائے جس انداز میں ضائع کیا گیا، اس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہم اس مصیبت سے کیسے نکل سکتے ہیں؟ جواب آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا  بہت مشکل ہے۔ ہمیں  مالیاتی خسارے کو اپنی شرح نمو سے کم کرنا ہوگا، کرنٹ اکاؤنٹ کو توازن میں لانے کے لیے ایکسپورٹ کو بڑہانا ہوگا، قرض کی ادائیگی اور معاشی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے نجکاری کی طرف جانا ہوگا  اور اپنی مسابقت کو بہتر بنانے کے لیے کافی زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری کروانا ہوگی۔

ماضی میں ریاست نے خود بنیاد پرستی کو فروغ دینے اوراپنے جغرافیائی سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مذہبی کارڈ کا غلط استعمال کرنے کی غلطی کی ہے۔ جہاں اس غلطی سے باقاعدہ توبہ کرنے اور اسے دوبارہ نہ دہرانے کا عزم کرنے کی ضرورت ہے، وہیں عسکریت پسندوں کے مقابل ایک متحرک، کارگر اور موثر بیانہ بنانے کے لیے محض فتاویٰ جات کا حصول اور ان کی اشاعت کافی نہیں بلکہ بہتر حکمت عملی کے ساتھ مضبوط علمی و منطقی انداز میں ایسا بیانیہ مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو کم وقت میں زیادہ فوائد دینے کے حامل ہوں۔

میرے نزدیک ترقی کے ضروری ستونوں میں سے چھٹا اور آخری ستون  ہمارا تعلیمی نظام ہے۔ سب سے پہلے ہم یہاں اعدادوشمار کی مدد سے خواندگی اور تعلیم کی ابتر حالت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

وفاقی اور صوبائی حکومتیں  تعلیم پر سالانہ ایک ہزار ارب روپے تقریباً  خرچ کرتی ہیں۔ یہ وفاقی حکومت کو چلانے کے لیے آنے والی لاگت سے دوگنا زیادہ بجٹ  ہے۔  یہ  ملکی دفاع پر خرچ ہونے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص رقم کے بعد سب سے بڑا بجٹ ہے۔ یاد رہے کہ یہ صرف پبلک سیکٹر نظام تعلیم کے اخراجات ہیں، پرائیوٹ سطح پر قائم اداروں کے اعداد و شمار الگ ہیں مگر ان تمام اخراجات سے ہمیں حاصل کیا ہورہا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔